فکر و اظہار میں خود آنے لگی پا مردی

فکر و اظہار میں خود آنے لگی پا مردی
بھوک کی آگ نے لہجے میں تمازت بھر دی


کچھ تو ہے زیست جو وقف مے و ساغر کر دی
ورنہ کس کو ہے پسند اپنے لیے بیدردی


عشق آوارہ و بدنام نے عزت رکھ لی
ہم سے بے گھر بھی کیا کرتے ہیں کوچہ گردی


بات تو جب ہے کہ تم کہنے لگو اس کو بسنت
گل و گلزار پہ جو آنے لگی ہے زردی


آپ کے جسم پہ کیا خوب ہے موسم کا لباس
ہائے جو الگ سمجھتے نہیں گرمی سردی