Kaleem Aajiz

کلیم عاجز

کلاسیکی لہجے کےلئے ممتاز اور مقبول شاعر

Prominent contemporary Indian poet of classical tone.

کلیم عاجز کی غزل

    ہم کو تو خیر پہنچنا تھا جہاں تک پہنچے

    ہم کو تو خیر پہنچنا تھا جہاں تک پہنچے جو ہمیں روک رہے تھے وہ کہاں تک پہنچے فصل گل تک رہے یا دور خزاں تک پہنچے بات جب نکلی ہے منہ سے تو جہاں تک پہنچے میرے اشعار میں ہے حسن معانی کی تلاش لوگ اب تک نہ مرے درد نہاں تک پہنچے مجھ کو رہنے دو مرے درد کی لذت میں خموش یہ وہ افسانہ نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    بدلی سی اپنی آنکھوں میں چھائی ہوئی سی ہے

    بدلی سی اپنی آنکھوں میں چھائی ہوئی سی ہے بھولی ہوئی سی یاد پھر آئی ہوئی سی ہے مت ہاتھ رکھ سلگتے کلیجے پہ ہم نشیں یہ آگ دیکھنے میں بجھائی ہوئی سی ہے لیتا ہوں سانس بھی تو بھٹکتا ہے تن بدن رگ رگ میں ایک نوک سمائی ہوئی سی ہے بے ساختہ کہے ہے جو دیکھے ہے زخم دل یہ چوٹ تو انہیں کی لگائی ...

    مزید پڑھیے

    امتحان شوق میں ثابت قدم ہوتا نہیں

    امتحان شوق میں ثابت قدم ہوتا نہیں عشق جب تک واقف آداب غم ہوتا نہیں ان کی خاطر سے کبھی ہم مسکرا اٹھے تو کیا مسکرا لینے سے دل کا درد کم ہوتا نہیں جو ستم ہم پر ہے اس کی نوعیت کچھ اور ہے ورنہ کس پر آج دنیا میں ستم ہوتا نہیں تم جہاں ہو بزم بھی ہے شمع بھی پروانہ بھی ہم جہاں ہوتے ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے

    بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے اب انہیں دونوں سے گھر آباد ہے اب انہیں کی فکر میں صیاد ہے جن کے نغموں سے چمن آباد ہے جو مجھے برباد کر کے شاد ہے اس ستم گر کو مبارک باد ہے تم نے جو چاہا وہی ہو کر رہا یہ ہماری مختصر روداد ہے ہم نے تم سے رکھ کے امید کرم وہ سبق سیکھا کہ اب تک یاد ہے بے بسی بن ...

    مزید پڑھیے

    مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں

    مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں وہ نہ ہوتا تو غزل میں کبھی کہتا بھی نہیں جانتا تھا کہ ستم گر ہے مگر کیا کیجئے دل لگانے کے لیے اور کوئی تھا بھی نہیں جیسا بے درد ہو وہ پھر بھی یہ جیسا محبوب ایسا کوئی نہ ہوا اور کوئی ہوگا بھی نہیں وہی ہوگا جو ہوا ہے جو ہوا کرتا ہے میں نے اس پیار ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو تو بے سوال ملے بے طلب ملے

    ہم کو تو بے سوال ملے بے طلب ملے ہم وہ نہیں ہیں ساقی کہ جب مانگیں تب ملے فریاد ہی میں عہد بہاراں گزر گیا ایسے کھلے کہ پھر نہ کبھی لب سے لب ملے ہم یہ سمجھ رہے تھے ہمیں بد نصیب ہیں دیکھا تو مے کدے میں بہت تشنہ لب ملے کس نے وفا کا ہم کو وفا سے دیا جواب اس راستے میں لوٹنے والے ہی سب ...

    مزید پڑھیے

    میں روؤں ہوں رونا مجھے بھائے ہے

    میں روؤں ہوں رونا مجھے بھائے ہے کسی کا بھلا اس میں کیا جائے ہے دل آئے ہے پھر دل میں درد آئے ہے یوں ہی بات میں بات بڑھ جائے ہے کوئی دیر سے ہاتھ پھیلائے ہے وہ نامہرباں آئے ہے جائے ہے محبت میں دل جائے گر جائے ہے جو کھوئے نہیں ہے وہ کیا پائے ہے جنوں سب اشارے میں کہہ جائے ہے مگر عقل ...

    مزید پڑھیے

    حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا جمال دیں گے

    حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا جمال دیں گے تجھے بھی ہم اے غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے تپش پتنگوں کو بخش دیں گے لہو چراغوں میں ڈھال دیں گے ہم ان کی محفل میں رہ گئے ہیں تو ان کی محفل سنبھال دیں گے نہ بندۂ عقل و ہوش دیں گے نہ اہل فکر و خیال دیں گے تمہاری زلفوں کو جو درازی ...

    مزید پڑھیے

    قائم ہے سرور مئے گلفام ہمارا

    قائم ہے سرور مئے گلفام ہمارا کیا غم ہے اگر ٹوٹ گیا جام ہمارا اتنا بھی کسی دوست کا دشمن نہ ہو کوئی تکلیف ہے ان کے لیے آرام ہمارا پھولوں سے محبت ہے تقاضائے طبیعت کانٹوں سے الجھنا تو نہیں کام ہمارا بھولے سے کوئی نام وفا کا نہیں لیتا دنیا کو ابھی یاد ہے انجام ہمارا غیر آ کے بنے ...

    مزید پڑھیے

    جب صبا آئی ادھر ذکر بہار آ ہی گیا

    جب صبا آئی ادھر ذکر بہار آ ہی گیا یاد ہم کو انقلاب روزگار آ ہی گیا کس لیے اب جبر کی تکلیف فرماتے ہیں آپ بندہ پرور میں تو زیر اختیار آ ہی گیا لالہ و گل پر جو گزری ہے گزرنے دیجئے آپ کو تو مہرباں لطف بہار آ ہی گیا دہر میں رسم وفا بدنام ہو کر ہی رہی ہم بچاتے ہی رہے دامن غبار آ ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5