Kaleem Aajiz

کلیم عاجز

کلاسیکی لہجے کےلئے ممتاز اور مقبول شاعر

Prominent contemporary Indian poet of classical tone.

کلیم عاجز کی غزل

    شانے کا بہت خون جگر جائے ہے پیارے

    شانے کا بہت خون جگر جائے ہے پیارے تب زلف کہیں تا بہ کمر جائے ہے پیارے جس دن کوئی غم مجھ پہ گزر جائے ہے پیارے چہرہ ترا اس روز نکھر جائے ہے پیارے اک گھر بھی سلامت نہیں اب شہر وفا میں تو آگ لگانے کو کدھر جائے ہے پیارے رہنے دے جفاؤں کی کڑی دھوپ میں مجھ کو سائے میں تو ہر شخص ٹھہر جائے ...

    مزید پڑھیے

    اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو

    اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو دیوانہ گل قیدئ زنجیر ہیں اور تم کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے ...

    مزید پڑھیے

    کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے

    کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے اب تو کچھ فیصلہ کر جانے کو جی چاہے ہے لوگ اپنے در و دیوار سے ہوشیار رہیں آج دیوانے کا گھر جانے کو جی چاہے ہے درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے دل کو زخموں کے سوا کچھ نہ دیا پھولوں نے اب تو کانٹوں میں اتر ...

    مزید پڑھیے

    بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو

    بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو بہار لائی ہے کیسی بہار دیکھو تو یہ کیا ہوا کہ سلامت نہیں کوئی دامن چمن میں پھول کھلے ہیں کہ خار دیکھو تو لہو دلوں کا چراغوں میں کل بھی جلتا تھا اور آج بھی ہے وہی کاروبار دیکھو تو یہاں ہر اک رسن و دار ہی دکھاتا ہے عجیب شہر عجیب شہریار دیکھو تو نہ ...

    مزید پڑھیے

    وقت کے در پر بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے بھی

    وقت کے در پر بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے بھی شام و سحر کے ساتھ بھی چلئے شام و سحر سے آگے بھی عقل و خرد کے ہنگاموں میں شوق کا دامن چھوٹ نہ جائے شوق بشر کو لے جاتا ہے عقل بشر سے آگے بھی دار و رسن کی ریشہ داوانی گردن و سر تک رہتی ہے اہل جنوں کا پاؤں رہا ہے گردن و سر سے آگے بھی میرے ...

    مزید پڑھیے

    تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں

    تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں زندگی درد محبت کے سوا کچھ بھی نہیں شمع خاموش بھی رہتے ہوئے خاموش کہاں اس طرح کہہ دیا سب کچھ کہ کہا کچھ بھی نہیں ہم گدایان محبت کا یہی سب کچھ ہے گرچہ دنیا یہی کہتی ہے وفا کچھ بھی نہیں یہ نیا طرز کرم ہے ترا اے فصل بہار لے لیا پاس میں جو ...

    مزید پڑھیے

    میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو

    میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو یوں تو ...

    مزید پڑھیے

    یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے

    یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے نہ پوچھو زخم ہائے دل کا عالم چمن میں ایسی گل کاری نہیں ہے بہت دشوار سمجھانا ہے غم کا سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے غزل ہی گنگنانے دو کہ مجھ کو مزاج تلخ گفتاری نہیں ہے چمن میں کیوں چلوں کانٹوں سے بچ کر یہ آئین وفاداری نہیں ...

    مزید پڑھیے

    غم دل ہی غم دوراں غم جانانہ بنتا ہے

    غم دل ہی غم دوراں غم جانانہ بنتا ہے یہی غم شعر بنتا ہے یہی افسانہ بنتا ہے اسی سے گرمیٔ دار و رسن ہے انقلابوں میں بہاروں میں یہی زلف و قد جانانہ بنتا ہے سروں کے خم صراحی گردنوں کی جام زخموں کے مہیا جب یہ ہو لیتے ہیں تب مے خانہ بنتا ہے بگڑتا کیا ہے پروانے کا جل کر خاک ہونے میں کہ ...

    مزید پڑھیے

    سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے

    سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے اے حسن تیرے چاہنے والے کہاں گئے شانوں کو چھین چھین کے پھینکا گیا کہاں آئینے توڑ پھوڑ کے ڈالے کہاں گئے خلوت میں روشنی ہے نہ محفل میں روشنی اہل وفا چراغ وفا لے کہاں گئے بت خانے میں بھی ڈھیر ہیں ٹکڑے حرم میں بھی جام و سبو کہاں تھے اچھالے کہاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5