Kaleem Aajiz

کلیم عاجز

کلاسیکی لہجے کےلئے ممتاز اور مقبول شاعر

Prominent contemporary Indian poet of classical tone.

کلیم عاجز کی غزل

    ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی

    ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی ہم کو یہ زمانے کی ادا یاد رہے گی دن رات کے آنسو سحر و شام کی آہیں اس باغ کی یہ آب و ہوا یاد رہے گی کس دھوم سے بڑھتی ہوئی پہنچی ہے کہاں تک دنیا کو تری زلف رسا یاد رہے گی کرتے رہیں گے تم سے محبت بھی وفا بھی گو تم کو محبت نہ وفا یاد رہے گی کس بات کا تو ...

    مزید پڑھیے

    کس طرح کوئی دھوپ میں پگھلے ہے جلے ہے

    کس طرح کوئی دھوپ میں پگھلے ہے جلے ہے یہ بات وہ کیا جانے جو سائے میں پلے ہے دل درد کی بھٹی میں کئی بار جلے ہے تب ایک غزل حسن کے سانچے میں ڈھلے ہے کیا دل ہے کہ اک سانس بھی آرام نہ لے ہے محفل سے جو نکلے ہے تو خلوت میں جلے ہے بھولی ہوئی یاد آ کے کلیجے کو ملے ہے جب شام گزر جائے ہے جب رات ...

    مزید پڑھیے

    زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے

    زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے کل بھی تھا سینے پہ اک سنگ گراں آج بھی ہے دل افسردہ کو پہلو میں لئے بیٹھے ہیں بزم میں مجمع خستہ جگراں آج بھی ہے تلخیٔ کوہ کنی کل بھی مرا حصہ تھا جام شیریں بہ نصیب دیگراں آج بھی ہے زخم دل کے نہیں آثار بظاہر لیکن چارہ گر سے گلۂ درد نہاں آج بھی ...

    مزید پڑھیے

    یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا

    یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا جو اکڑ کے شان سے جائے ہے پیار سے یہ بتائے جا کہ بلندیوں کی ہے آرزو تو دلوں میں پہلے سمائے جا وہ جو زخم دیں سو قبول ہے ترے واسطے وہی پھول ہے یہی اہل دل کا اصول ہے وہ رلائے جائیں تو گائے ...

    مزید پڑھیے

    مرا حال پوچھ کے ہم نشیں مرے سوز دل کو ہوا نہ دے

    مرا حال پوچھ کے ہم نشیں مرے سوز دل کو ہوا نہ دے بس یہی دعا میں کروں ہوں اب کہ یہ غم کسی کو خدا نہ دے یہ جو زخم دل کو پکائے ہم لئے پھر رہے ہیں چھپائے ہم کوئی نا شناس مزاج غم کہیں ہاتھ اس کو لگا نہ دے تو جہاں سے آج ہے نکتہ چیں کبھی مدتوں میں رہا وہیں میں گدائے راہ گزر نہیں مجھے دور ہی ...

    مزید پڑھیے

    ہے انہیں دو ناموں سے ہر ایک افسانے کا نام

    ہے انہیں دو ناموں سے ہر ایک افسانے کا نام ایک تیرا نام ہے اک تیرے دیوانے کا نام تجھ سے روشن ہے چراغ محفل دار و رسن مجھ سے بھی اس دور میں زندہ ہے پروانے کا نام تیری زلف و چشم و لب کا نام ہے میری غزل تیرا انداز سخن میرے غزل گانے کا نام چل اسی انداز سے ہاں چل اسی انداز سے شوخیٔ باد ...

    مزید پڑھیے

    جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا

    جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا یہی درد سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا ترے ہاتھ سے ملی ہے مجھے آنسوؤں کی مالا تری زلف ہو دوگونہ ترا حسن ہو دوبالا یہ سماں اسے دکھاؤں صبا جا اسے بلا لا نہ بہار ہے نہ ساقی نہ شراب ہے نہ پیالا مرے درد کی حقیقت کوئی میرے دل سے پوچھے یہ چراغ وہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا

    دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا اٹھا نہیں ہے ابھی اعتبار نالوں کا یہ مختصر سی ہے روداد صبح مے خانہ زمیں پہ ڈھیر تھا ٹوٹے ہوئے پیالوں کا یہ خوف ہے کہ صبا لڑکھڑا کے گر نہ پڑے پیام لے کے چلی ہے شکستہ حالوں کا نہ آئیں اہل خرد وادئ جنوں کی طرف یہاں گزر نہیں دامن بچانے والوں ...

    مزید پڑھیے

    آشنا غم سے ملا راحت سے بیگانہ ملا

    آشنا غم سے ملا راحت سے بیگانہ ملا دل بھی ہم کو خوبیٔ قسمت سے دیوانہ ملا بلبل و گل شمع و پروانہ کو ہم پر رشک ہے درد جو ہم کو ملا سب سے جدا گانہ ملا ہم نے ساقی کو بھی دیکھا پیر مے خانہ کو بھی کوئی بھی ان میں نہ راز آگاہ مے خانہ ملا سب نے دامن چاک رکھا ہے بقدر احتیاج ہم کو دیوانوں ...

    مزید پڑھیے

    منہ فقیروں سے نہ پھیرا چاہئے

    منہ فقیروں سے نہ پھیرا چاہئے یہ تو پوچھا چاہئے کیا چاہئے چاہ کا معیار اونچا چاہئے جو نہ چاہیں ان کو چاہا چاہئے کون چاہے ہے کسی کو بے غرض چاہنے والوں سے بھاگا چاہئے ہم تو کچھ چاہے ہیں تم چاہو ہو کچھ وقت کیا چاہے ہے دیکھا چاہئے چاہتے ہیں تیرے ہی دامن کی خیر ہم ہیں دیوانے ہمیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5