جب صبا آئی ادھر ذکر بہار آ ہی گیا

جب صبا آئی ادھر ذکر بہار آ ہی گیا
یاد ہم کو انقلاب روزگار آ ہی گیا


کس لیے اب جبر کی تکلیف فرماتے ہیں آپ
بندہ پرور میں تو زیر اختیار آ ہی گیا


لالہ و گل پر جو گزری ہے گزرنے دیجئے
آپ کو تو مہرباں لطف بہار آ ہی گیا


دہر میں رسم وفا بدنام ہو کر ہی رہی
ہم بچاتے ہی رہے دامن غبار آ ہی گیا


ہنس کے بولے اب تجھے زنجیر کی حاجت نہیں
ان کو میری بے بسی کا اعتبار آ ہی گیا


شکوہ سنجی اپنی عادت میں نہیں داخل مگر
دل دکھا تو لب پہ حرف ناگوار آ ہی گیا