Kaif Ahmed Siddiqui

کیف احمد صدیقی

کیف احمد صدیقی کی غزل

    دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے

    دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے سنگ رواں کے دل میں بھی اک زخم آب ہے ہر فرد آج ٹوٹتے لمحوں کے شور میں عصر رواں کی جاگتی آنکھوں کا خواب ہے وہ خود ہی اپنی آگ میں جل کر فنا ہوا جس سائے کی تلاش میں یہ آفتاب ہے اب کوئی نصف دام پہ بھی پوچھتا نہیں یہ زندگی نصاب سے خارج کتاب ہے پلکوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    روز مرغا بنا کرے کوئی

    روز مرغا بنا کرے کوئی کب تک آخر پٹا کرے کوئی جب کہیں نوکری نہیں ملتی ڈگریاں لے کے کیا کرے کوئی مجھ کو ریڈنگ سے سخت نفرت ہے میں سنوں اور پڑھا کرے کوئی جس میں آتی ہو بو تعصب کی ایسی تاریخ کیا کرے کوئی جن میں جنگ و جدل کے قصے ہوں وہ کتب کیوں پڑھا کرے کوئی غیر ملکی زبان انگلش ...

    مزید پڑھیے

    ختم چھٹی مدرسے کا در کھلا

    ختم چھٹی مدرسے کا در کھلا عقل و دانش علم و فن کا گھر کھلا پھر وہی اسکول کی سرگرمیاں پھر وہی تعلیم کا دفتر کھلا میری تعلیمی لیاقت کا بھرم امتحاں کے بعد ہی اکثر کھلا ماسٹر صاحب کے غصے کا سبب بے خطا معصوم بچوں پر کھلا میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہوئیں جب نظر آیا کوئی بستر ...

    مزید پڑھیے

    سرد جذبے بجھے بجھے چہرے

    سرد جذبے بجھے بجھے چہرے جسم زندہ ہیں مر گئے چہرے آج کے دور کی علامت ہیں فلسفی ذہن سوچتے چہرے سیل غم سے بھی صاف ہو نہ سکے گرد آلود ملگجے چہرے یخ زدہ سوچ کے دریچوں میں کس نے دیکھے ہیں کانپتے چہرے اک برس بھی ابھی نہیں گزرا کتنی جلدی بدل گئے چہرے میں نے اکثر خود اپنے چہرے ...

    مزید پڑھیے

    مجھے نقل پر بھی اتنا اگر اختیار ہوتا

    مجھے نقل پر بھی اتنا اگر اختیار ہوتا کبھی فیل امتحاں میں نہ میں بار بار ہوتا جو میں فیل ہو گیا تو سبھی دے رہے ہیں طعنے کوئی دل نواز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا مجھے آج اتنی نفرت سے نہ دیکھتی یہ دنیا جو پڑھائی سے ذرا بھی مرے دل کو پیار ہوتا مرے ماسٹر نہ ہوتے جو علوم و فن میں دانا کبھی ...

    مزید پڑھیے

    قصۂ نقل کچھ ایسا ہے بتائے نہ بنے

    قصۂ نقل کچھ ایسا ہے بتائے نہ بنے بات بگڑی ہے کچھ ایسی کہ بنائے نہ بنے امتحاں حال میں ہم لائے ہیں اک ایسی کتاب ممتحن پوچھے یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے ان کتابوں سے ہے پیچھا بھی چھڑانا مشکل اور یہ بوجھ بھی اب ہم سے اٹھائے نہ بنے کیا کریں کھیل میں کم بخت کشش ہے ایسی جس سے دل اپنا ...

    مزید پڑھیے

    خوشی کی آرزو کیا دل میں ٹھہرے

    خوشی کی آرزو کیا دل میں ٹھہرے ترے غم نے بٹھا رکھے ہیں پہرے کہاں چھوڑ آئی میری تیرہ بختی وہ راتیں نور کی وہ دن سنہرے مری جانب نہ دیکھو مسکرا کر ہوئے جاتے ہیں دل کے زخم گہرے نظر پر تیرگی چھائی ہوئی ہے مگر آنکھوں میں ہیں سپنے سنہرے جدھر بھی دیکھتا ہوں کیفؔ ادھر ہی گھرے ہیں غم کے ...

    مزید پڑھیے

    ہم آج کچھ حسین سرابوں میں کھو گئے

    ہم آج کچھ حسین سرابوں میں کھو گئے آنکھیں کھلیں تو جاگتے خوابوں میں کھو گئے ہم صفحۂ حیات سے جب بے نشاں ہوئے لفظوں کی روح بن کے کتابوں میں کھو گئے آئینۂ بہار کے کچھ عکس مضمحل خوشبو کا رنگ پا کے گلابوں میں کھو گئے دراصل برشگال کے تم آفتاب تھے برسات جب ہوئی تو سحابوں میں کھو ...

    مزید پڑھیے

    سارے دن دشت تجسس میں بھٹک کر سو گیا

    سارے دن دشت تجسس میں بھٹک کر سو گیا شام کی آغوش میں سورج بھی تھک کر سو گیا آخر شب میں بھی کھا کر خواب آور گولیاں چند لمحے نشۂ غم سے بہک کر سو گیا یہ سکوت شام یہ ہنگامۂ ذہن بشر روح ہے بے دار لیکن جسم تھک کر سو گیا آخر اس دور پر آشوب کا ہر آدمی خواب مستقبل کے جنگل میں بھٹک کر سو ...

    مزید پڑھیے

    ہو گئے ناکام تو پچھتائیں کیا

    ہو گئے ناکام تو پچھتائیں کیا دوستوں کے سامنے شرمائیں کیا ہو رہے ہیں فیل ہم دو سال سے گھر میں جا کر اپنا منہ دکھلائیں کیا جب کسی صورت نہیں اس سے مفر امتحاں کے نام سے گھبرائیں کیا یاد کر لیں آج تھوڑا سا سبق ماسٹر صاحب کے ڈنڈے کھائیں کیا جب گرو جی خود نہیں سمجھے سوال اپنے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3