Kaif Ahmed Siddiqui

کیف احمد صدیقی

کیف احمد صدیقی کی غزل

    دنیا میں کچھ اپنے ہیں کچھ بیگانے الفاظ

    دنیا میں کچھ اپنے ہیں کچھ بیگانے الفاظ کس کو اتنی فرصت ہے جو پہچانے الفاظ ریگ علامت میں بھی جل کر پا نہ سکے مفہوم صحرائے معنی میں بھی بھٹکے انجانے الفاظ دشت ازل سے دشت ابد تک چھان چکا میں خاک اور کہاں لے جائیں گے اب بھٹکانے الفاظ بے معنی ماحول میں رہ کر ذہن ہوا ماؤف مجھ کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہم ایک ڈھلتی ہوئی دھوپ کے تعاقب میں

    ہم ایک ڈھلتی ہوئی دھوپ کے تعاقب میں ہیں تیز گام سائے سائے جاتے ہیں چمن میں شدت درد نمود سے غنچے تڑپ رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں میں وہ خزاں کا برہنہ بدن شجر ہوں جسے لباس زخم بہاراں پہنائے جاتے ہیں شفق کی جھیل میں جب بھی ہے ڈوبتا سورج تو پاس دھوپ ہی جاتی نہ سائے جاتے ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    جو صدا گونجتی تھی کانوں میں

    جو صدا گونجتی تھی کانوں میں منجمد ہو گئی زبانوں میں لمحہ لمحہ پگھل رہی ہے حیات خواب کی یخ زدہ چٹانوں میں کتنے جذبات ہو گئے آہن ان مشینوں کے کارخانوں میں شہد کا گھونٹ بن گیا ہوگا ذائقہ زہر کا زبانوں میں خامشی بھوت بن کے رہتی ہے آج انسان کے مکانوں میں اک حسیں پھول بن کے گرتی ...

    مزید پڑھیے

    اک سانپ مجھ کو چوم کے تریاق دے گیا

    اک سانپ مجھ کو چوم کے تریاق دے گیا لیکن وہ اپنے ساتھ مرا زہر لے گیا اکثر بدن کی قید سے آزاد ہو کے بھی اپنا ہی عکس دور سے میں دیکھنے گیا دنیا کا ہر لباس پہننا پڑا اسے اک شخص جب نکل کے مرے جسم سے گیا ایسی جگہ کہ موت بھی ڈر جائے دیکھ کر میں خود کو زندگی سے بہت دور لے گیا محسوس ہو رہا ...

    مزید پڑھیے

    نام لکھا لیا تو پھر کرتے ہو ہائے ہائے کیوں

    نام لکھا لیا تو پھر کرتے ہو ہائے ہائے کیوں پڑھنا نہ تھا تمہیں اگر درجے میں پڑھنے آئے کیوں کیونکر ہم امتحان دیں سوئیں گے جا کے باغ میں پڑھنے کو آدھی رات تک کوئی ہمیں جگائے کیوں بیٹھے ہیں اپنی سیٹ پر کیسے بھگائیں ماسٹر آئے ہیں دے کے فیس ہم کوئی ہمیں بھگائے کیوں چیخیں گے خوب ہم ...

    مزید پڑھیے

    نکلی جو آج تک نہ کسی کی زبان سے

    نکلی جو آج تک نہ کسی کی زبان سے ٹکرا رہی ہے بات وہی میرے کان سے سوتا رہا میں خوف کی چادر لپیٹ کر آسیب چیختے رہے خالی مکان سے اکثر میں ایک زہر بجھے تیر کی طرح نکلا ہوں حادثات کی ترچھی کمان سے پھیلا ہوا ہے حد نظر تک سکوت مرگ آواز دے رہا ہے کوئی آسمان سے تنہائیوں کو سونپ کے ...

    مزید پڑھیے

    آج پھر شاخ سے گرے پتے

    آج پھر شاخ سے گرے پتے اور مٹی میں مل گئے پتے جانے کس دشت کی تلاش میں ہیں ریگزاروں میں چیختے پتے کل جنہیں آسماں پہ دیکھا تھا آج پاتال میں ملے پتے اپنی آواز ہی سے خوف زدہ شاخ در شاخ کانپتے پتے مجھ کو اک برگ خشک بھی نہ ملا اب کہاں باغ میں ہرے پتے سارے گلشن کو دے گئے سونا اور خود ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو تعلیم سے نفرت ہی سہی

    مجھ کو تعلیم سے نفرت ہی سہی اور کھیلوں سے محبت ہی سہی میں نے اس سے تو بڑے کام لیے آپ کو کھیل سے وحشت ہی سہی امتحاں سے میں نہیں گھبراتا فیل ہونا مری قسمت ہی سہی پڑھنے والوں نے بھی کیا کچھ نہ کیا نقل کرنا مری عادت ہی سہی میں نے تو صرف گزارش کی تھی سب کی نظروں میں شکایت ہی سہی میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ پیلی شاخ پر بیٹھے ہوئے پیلے پرندے

    یہ پیلی شاخ پر بیٹھے ہوئے پیلے پرندے لرزتی دھوپ کی آغوش میں سہمے پرندے خدا معلوم کس آواز کے پیاسے پرندے وہ دیکھو خامشی کی جھیل میں اترے پرندے مرے کمرے کی ویرانی سے اکتائے پرندے سلگتی دوپہر میں کس طرف جاتے پرندے حصار جسم سے گھبرا کے جب نکلے پرندے ہوا کی زد میں آ کر دیر تک چیخے ...

    مزید پڑھیے

    سورج آنکھیں کھول رہا ہے سوکھے ہوئے درختوں میں

    سورج آنکھیں کھول رہا ہے سوکھے ہوئے درختوں میں سائے راکھ بنے جاتے ہیں جیتے ہوئے درختوں میں آج کچھ ایسے شعلے بھڑکے بارش کے ہر قطرے سے دھوپ پناہیں مانگ رہی ہے بھیگے ہوئے درختوں میں خاموشی بھی خوف زدہ ہے آسیبی آوازوں سے سناٹے بھی کانپ رہے ہیں سہمے ہوئے درختوں میں تنہائی کی دلہن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3