قصۂ نقل کچھ ایسا ہے بتائے نہ بنے

قصۂ نقل کچھ ایسا ہے بتائے نہ بنے
بات بگڑی ہے کچھ ایسی کہ بنائے نہ بنے


امتحاں حال میں ہم لائے ہیں اک ایسی کتاب
ممتحن پوچھے یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے


ان کتابوں سے ہے پیچھا بھی چھڑانا مشکل
اور یہ بوجھ بھی اب ہم سے اٹھائے نہ بنے


کیا کریں کھیل میں کم بخت کشش ہے ایسی
جس سے دل اپنا ہٹائیں تو ہٹائے نہ بنے


صبح کو آنکھ بھی کھلتی نہیں جلدی اپنی
دیر ہو جائے تو اسکول بھی جائے نہ بنے


گھر سے بھی سینما جانے کی اجازت نہ ملی
اور اسکول سے بھی بھاگ کے آئے نہ بنے


کیفؔ خاموش رہا بھی نہیں جاتا مجھ سے
اور درجے میں غزل گائیں تو گائے نہ بنے