پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم
پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم پردے پھر آسماں کے اٹھائے ہوئے ہیں ہم چھائی ہوئی ہے عشق کی پھر دل پہ بے خودی پھر زندگی کو ہوش میں لائے ہوئے ہیں ہم جس کا ہر ایک جزو ہے اکسیر زندگی پھر خاک میں وہ جنس ملائے ہوئے ہیں ہم ہاں کون پوچھتا ہے خوشی کا نہفتہ راز پھر غم کا بار دل پہ ...