Josh Malihabadi

جوشؔ ملیح آبادی

سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف

One of the most fiery progressive poets who is known as Shayar-e-Inquilab (revolutionary poet)

جوشؔ ملیح آبادی کی غزل

    پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم

    پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم پردے پھر آسماں کے اٹھائے ہوئے ہیں ہم چھائی ہوئی ہے عشق کی پھر دل پہ بے خودی پھر زندگی کو ہوش میں لائے ہوئے ہیں ہم جس کا ہر ایک جزو ہے اکسیر زندگی پھر خاک میں وہ جنس ملائے ہوئے ہیں ہم ہاں کون پوچھتا ہے خوشی کا نہفتہ راز پھر غم کا بار دل پہ ...

    مزید پڑھیے

    حیرت ہے آہ صبح کو ساری فضا سنے

    حیرت ہے آہ صبح کو ساری فضا سنے لیکن زمیں پہ بت نہ فلک پر خدا سنے فریاد عندلیب سے کانپے تمام باغ لیکن نہ گل نہ غنچہ نہ باد صبا سنے خود اپنی ہی صداؤں سے گونجے ہوئے ہیں کان کوئی کسی کی بات سنے بھی تو کیا سنے یہ بھی عجب طلسم ہے اے شورش حیات درد آشنا کی بات نہ درد آشنا سنے شاہوں کے دل ...

    مزید پڑھیے

    یوں ڈھل گیا ہے درد میں درماں کبھی کبھی

    یوں ڈھل گیا ہے درد میں درماں کبھی کبھی نغمے بنے ہیں گریۂ پنہاں کبھی کبھی ہونکی ہیں باد صبح کی رو میں بھی آندھیاں ابلا ہے ساحلوں سے بھی طوفاں کبھی کبھی بڑھتا چلا گیا ہوں انہی کی طرف کچھ اور یوں بھی ہوا ہوں ان سے گریزاں کبھی کبھی آنچوں میں گنگناتے ہیں گلزار گاہ گاہ شعلوں سے پٹ ...

    مزید پڑھیے

    فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو

    فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو خاک ہونا ہے تو خاک کوئے جاناں کیوں نہ ہو دہر میں اے خواجہ ٹھہری جب اسیری ناگزیر دل اسیر حلقۂ گیسوئے پیچاں کیوں نہ ہو زیست ہے جب مستقل آوارہ گردی ہی کا نام عقل والو پھر طواف کوئے جاناں کیوں نہ ہو جب نہیں مستوریوں میں بھی گناہوں سے ...

    مزید پڑھیے

    دوستو وقت ہے پھر زخم جگر تازہ کریں

    دوستو وقت ہے پھر زخم جگر تازہ کریں پردہ جنبش میں ہے پھر آؤ نظر تازہ کریں تاکجا نالۂ غربت کہ چلی باد شمال دل میں پھر زمزمۂ عزم سفر تازہ کریں آؤ پھر دھوم سے ہو آج غروب اور طلوع سنت بندگئ شمس و قمر تازہ کریں آؤ چل کر رخ نا شستہ کو دیکھیں دم صبح موج رنگ افق و نور سحر تازہ کریں کلہ ...

    مزید پڑھیے

    آ فصل گل ہے غرق تمنا ترے لیے

    آ فصل گل ہے غرق تمنا ترے لیے ڈوبا ہوا ہے رنگ میں صحرا ترے لیے ساحل پہ سرو ناز کو دے زحمت خرام بل کھا رہا ہے خاک پہ دریا ترے لیے ایفائے عہد کر کہ ہے مدت سے بیقرار روح وفائے وعدۂ فردا ترے لیے شانوں پہ اب تو کاکل شب رنگ کھول دے بکھری ہوئی ہے زلف تمنا ترے لیے اٹھ چشم جاودانۂ ساغر ...

    مزید پڑھیے

    سرشار ہوں سرشار ہے دنیا مرے آگے

    سرشار ہوں سرشار ہے دنیا مرے آگے کونین ہے اک لرزش صہبا مرے آگے ہر نجم ہے اک عارض روشن مرے نزدیک ہر ذرہ ہے اک دیدۂ بینا مرے آگے ہر جام ہے نظارۂ کوثر مرے حق میں ہر گام ہے گلگشت مصلےٰ مرے آگے ہر پھول ہے لعل شکر افشاں کی حکایت ہر غنچہ ہے اک حرف تمنا مرے آگے اک مضحکہ ہے پرسش عقبیٰ مرے ...

    مزید پڑھیے

    یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں

    یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں آخر تمہیں بتاؤ کیونکر نہ تم کو چاہیں اب سر اٹھا کے میں نے شکوؤں سے ہات اٹھایا مر جاؤں گا ستم گر نیچی نہ کر نگاہیں کچھ گل ہی سے نہیں ہے روح نمو کو رغبت گردن میں خار کی بھی ڈالے ہوئے ہے بانہیں اللہ ری دل فریبی جلووں کے بانکپن کی محفل میں وہ جو آئے کج ...

    مزید پڑھیے

    جی میں آتا ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجیے

    جی میں آتا ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجیے کاسۂ دل لے کے پھر دریوزۂ غم کیجیے گونجتا تھا جس سے کوہ بے ستون و دشت نجد گوش جاں کو پھر انہیں نالوں کا محرم کیجیے حسن بے پروا کو دے کر دعوت لطف و کرم عشق کے زیر نگیں پھر ہر دو عالم کیجیے دور پیشیں کی طرح پھر ڈالیے سینے میں زخم زخم کی لذت سے ...

    مزید پڑھیے

    بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا

    بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا سوئی جو عقل روح نے بیدار کر دیا اللہ رے حسن دوست کی آئینہ داریاں اہل نظر کو نقش بہ دیوار کر دیا یا رب یہ بھید کیا ہے کہ راحت کی فکر نے انساں کو اور غم میں گرفتار کر دیا دل کچھ پنپ چلا تھا تغافل کی رسم سے پھر تیرے التفات نے بیمار کر دیا کل ان کے آگے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5