Josh Adeeb

جوش ادیب

  • 1937

جوش ادیب کی غزل

    اپنی محبت عام نہ کرنا

    اپنی محبت عام نہ کرنا ایسا کوئی کام نہ کرنا اک دن تیرے ہو جائیں گے ایسا خیال خام نہ کرنا کام کرو تو کام بہت ہیں ایسا ویسا کام نہ کرنا بات عدو کی کوئی سن کر عشق کو تو بدنام نہ کرنا لوٹ کے آنا گھر کے بدھو رستے ہی میں شام نہ کرنا جوشؔ یہ کہہ دو ان آنکھوں سے کوئی قتل عام نہ کرنا

    مزید پڑھیے

    عشق نے اپنا کرشمہ یہ دکھا کر چھوڑا

    عشق نے اپنا کرشمہ یہ دکھا کر چھوڑا داغ دامن پہ مرے غم کا لگا کر چھوڑا اے حیا تو نے جو گلشن میں لٹائی شبنم میں نے ہر پھول کو پیمانہ بنا کر چھوڑا سوز الفت کی قسم آتش الفت کی قسم بند کمرے میں مجھے تو نے جلا کر چھوڑا میری وحشت کا سبب پوچھتا پھرتا ہے وہی مجھ کو جس شخص نے دیوانہ بنا کر ...

    مزید پڑھیے

    ہوتا ہے تجھے دیکھ کے خوش عربدہ جو بھی

    ہوتا ہے تجھے دیکھ کے خوش عربدہ جو بھی اے دوست محبت کی ہری شاخ ہے تو بھی ہر روز یہاں قتل کی سنتے ہیں کہانی ارزاں ہے مرے شہر میں انساں کا لہو بھی ممکن ہے عداوت میں کمی آ گئی اس کی اب پوچھنے بیٹھا ہے مرا حال عدو بھی اے ماہ جبیں ماہ لقا جوشؔ کے لب سے دنیا نے سنا سن لے مرے حال کو تو ...

    مزید پڑھیے

    وہ ہوں گے اور ان کی یاد ہوگی

    وہ ہوں گے اور ان کی یاد ہوگی مری دنیا مگر برباد ہوگی جلی حرفوں میں جو چھاپی گئی ہے خبر وہ ساری بے بنیاد ہوگی نظر آ جائے گا پھر آسماں بھی مرے ہونٹوں پہ جب فریاد ہوگی بچھڑ کر ملتے ہیں اک روز پریمی کہانی یہ بھی تم کو یاد ہوگی جناب جوشؔ کی قربانیوں کی دل اہل وطن میں یاد ہوگی

    مزید پڑھیے