Javed Nasir

جاوید ناصر

  • 1949 - 2006

جاوید ناصر کی غزل

    مگر جو دل میں تھا وہ کہہ گئی ہے

    مگر جو دل میں تھا وہ کہہ گئی ہے سدا خاموش ہو کے رہ گئی ہے ابھی تک ذکر ہے لہروں میں اس کا وہ موج خیر تھی جو بہہ گئی ہے نچھاور کر رہے تھے ہم غموں کو مگر دیوار گریہ ڈھہ گئی ہے خدا آباد رکھے زندگی کو ہماری خامشی کو سہہ گئی ہے

    مزید پڑھیے

    بات یہ ہے سدا نہیں ہوتا

    بات یہ ہے سدا نہیں ہوتا کوئی اچھا برا نہیں ہوتا قرض ہے اور پھر ہمارا دل عادتوں سے جدا نہیں ہوتا دوسرا آدمی تو دوزخ ہے میں کبھی دوسرا نہیں ہوتا اتنا مانوس ہوں میں دنیا سے کوئی پل ہو گلہ نہیں ہوتا نیند کیوں زندگی سے ڈرتی ہے اور سورج صلہ نہیں ہوتا عیش و آرام تیرے بارے میں میں نے ...

    مزید پڑھیے

    دور ہوتے ہوئے قدموں کی خبر جاتی ہے

    دور ہوتے ہوئے قدموں کی خبر جاتی ہے خشک پتے کو لیے گرد سفر جاتی ہے پاس آتے ہوئے لمحات پگھل جاتے ہیں اب تو ہر چیز دبے پاؤں گزر جاتی ہے رات آ جائے تو پھر تجھ کو پکاروں یارب میری آواز اجالے میں بکھر جاتی ہے دوستو تم سے گزارش ہے یہاں مت آؤ اس بڑے شہر میں تنہائی بھی مر جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    کبھی عذاب کبھی ایک تازیانہ ہے

    کبھی عذاب کبھی ایک تازیانہ ہے ہمارا دور گزشتہ کا شاخسانہ ہے بس ایک وعدۂ فردا پہ لوگ زندہ ہیں بس ایک لمحۂ موجود آب و دانہ ہے تناظرات یہاں تو بدلتے رہتے ہیں تمہارا نیک رویہ بھی مجرمانہ ہے اب ایسی دھند میں مجھ کو دکھائی کیا دے گا ہے بس میں تیر نہ قابو میں وہ نشانہ ہے وہ سنگ راہ ...

    مزید پڑھیے

    گھر کی تسلیوں میں جواز ہنر تو ہے

    گھر کی تسلیوں میں جواز ہنر تو ہے ان جنگلوں میں رات کا جھوٹا سفر تو ہے جس کے لیے ہواؤں سے منہ پونچھتی ہے نیند اس جرأت حساب میں خوابوں کا ڈر تو ہے کھلتی ہیں آسماں میں سمندر کی کھڑکیاں بے دین راستوں پہ کہیں اپنا گھر تو ہے روشن کوئی چراغ مزار ہوا پہ ہو پلکوں پہ آج رات غبار سحر تو ...

    مزید پڑھیے

    تازہ تسلیوں سے پرانے سوال کر

    تازہ تسلیوں سے پرانے سوال کر شائستۂ عذاب ذرا دیکھ بھال کر اڑتی ہے آسمان میں رنگوں کی دھول کیوں دیکھیں گے ہم ہوا کو ہوا میں اچھال کر دل پر عجیب گرد ہے آنکھوں میں ہے غبار دو چار کام آج تو فرصت نکال کر آپس میں لڑ پڑے ہیں کسی مسئلے پہ لوگ اپنا بھی ایک شخص ہے پتھر سنبھال کر

    مزید پڑھیے

    یہ بے گھری یہ سمندر یہ روشنی دل کی

    یہ بے گھری یہ سمندر یہ روشنی دل کی اکیلے بیٹھ کے سوچا کیے ہیں محفل کی گھڑی جو بیت گئی اس کا بھی شمار کیا نصاب جاں میں تری خامشی بھی شامل کی میں حق پرست ہوں لیکن مجھے بھی حیرت ہے شکست، وہ بھی اسی دور میں ہو باطل کی؟ ہمارا دور مکمل نہیں ہوا لیکن تلاش راہ نہ کوئی طلب ہے منزل ...

    مزید پڑھیے

    یہ دریا ہے کہ پانی کا دھواں ہے

    یہ دریا ہے کہ پانی کا دھواں ہے کبھی آباد تھا خالی مکاں ہے میں آگے جا رہا ہوں پیچھے پیچھے پرانی عادتوں کی داستاں ہے غزل اپنی شباہت کھو رہی ہے مرا احساس مجھ سے بد گماں ہے مناظر ہیں کہ دوڑے جا رہے ہیں کوئی مضموں نہیں زور بیاں ہے

    مزید پڑھیے

    آہٹ بھی اگر کی تو تہہ ذات نہیں کی

    آہٹ بھی اگر کی تو تہہ ذات نہیں کی لفظوں نے کئی دن سے کوئی بات نہیں کی اظہار نہ آنکھیں نہ تحکم نہ قرینہ لہجے نے بھی عرصے سے ملاقات نہیں کی اصرار تھا ماتھے پہ نہ آنکھوں میں نمی تھی تم نے تو رعایت بھی مرے ساتھ نہیں کی ترتیب دیا اس کے لیے شور انا کو ہم نے بھی کئی دن سے بہت رات نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بری خبر ہے اسے مشتہر نہیں کرتے

    بری خبر ہے اسے مشتہر نہیں کرتے کسی کے عیب کو یوں بے ہنر نہیں کرتے مرے بزرگ ہیں طول کلام کے شیدا کہانیوں کو کبھی مختصر نہیں کرتے مجھے بھی شوق ہے دنیا کو فتح کرنے کا مگر پہاڑ کو عجلت میں سر نہیں کرتے نہ جانے کون سا موسم ہو پھول‌ پتوں کا اسی لیے تو یہ پودے سفر نہیں کرتے میں آج ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3