یہ دریا ہے کہ پانی کا دھواں ہے

یہ دریا ہے کہ پانی کا دھواں ہے
کبھی آباد تھا خالی مکاں ہے


میں آگے جا رہا ہوں پیچھے پیچھے
پرانی عادتوں کی داستاں ہے


غزل اپنی شباہت کھو رہی ہے
مرا احساس مجھ سے بد گماں ہے


مناظر ہیں کہ دوڑے جا رہے ہیں
کوئی مضموں نہیں زور بیاں ہے