کبھی عذاب کبھی ایک تازیانہ ہے
کبھی عذاب کبھی ایک تازیانہ ہے
ہمارا دور گزشتہ کا شاخسانہ ہے
بس ایک وعدۂ فردا پہ لوگ زندہ ہیں
بس ایک لمحۂ موجود آب و دانہ ہے
تناظرات یہاں تو بدلتے رہتے ہیں
تمہارا نیک رویہ بھی مجرمانہ ہے
اب ایسی دھند میں مجھ کو دکھائی کیا دے گا
ہے بس میں تیر نہ قابو میں وہ نشانہ ہے
وہ سنگ راہ بھی تازہ ہوا کا جھونکا بھی
کبھی قیام کبھی ہر طرف روانہ ہے