Javed Nasir

جاوید ناصر

  • 1949 - 2006

جاوید ناصر کی نظم

    باطن

    دور حاضر کے تم ایک شرمندہ انسان ہو میں جو چیخا تو میری انا ٹوٹ کر جنگلوں کی تپش بن گئی داستاں کی خلش بن گئی قہقہے بے صدا قہقہے مکڑیوں کی فضا میں اڑاتے رہے تیز مضبوط قوموں کے ناراض قصے سناتے رہے میں پریشان نیندوں کے بادل ہٹا کر بجھی رات کے سادہ پردے اٹھا کر جو خیمے سے نکلا تو ...

    مزید پڑھیے

    بعد از خدا

    چراغ ہے، کتاب ہے سوال ہے، جواب ہے کہ آسماں منڈیر ہے کہ یہ زمیں بھی ڈھیر ہے کسی کا کوئی نام ہے نہ زندگی مدام ہے مگر وہ ایک شخص ہے جو دھوپ کی کگار ہے جہاں کا اس پہ بار ہے چلے چلو کہ وقت ہے، عذاب کتنا سخت ہے مگر وہ کب زوال ہے، وہ موسموں کی شال ہے پہن رہی ہے شام بھی بدل رہی ہے رات بھی کہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ خلف کا وعدہ ہے

    اختر الزماں ناصر وقت جیسے رویا ہو دھوپ نرم لہجے میں جیسے آج گویا ہو دور کوئی مسجد میں بیچ عصر و مغرب کے جیسے کھویا کھویا ہو اختر الزماں ناصر میں تمہاری آنکھوں سے دیکھتا تھا دنیا کو میں تمہارے ہاتھوں سے زندگی کو چھوتا تھا میں تمہارے قدموں سے ناپتا تھا رستوں کو میں تمہاری سانسوں ...

    مزید پڑھیے

    نجات

    خاموش مہیب رات کا دل دھڑکتا ہے اندھیرے کے زبردست ہاتھ نے میری آنکھوں سے نیند گھسیٹ لی ہے اس وحشی سناٹے میں ہوا کی دوزخی لہروں پر تڑپتی ہوئی ایک فریاد مجھ تک پہنچتی نہ تھی حلق پر غیر مرئی ناخنوں کے دباؤ سے میں کسی اوک زبان میں گالیاں دیتا ہوں چند لمحوں کے بعد کسی غیر فطری غفلت کے ...

    مزید پڑھیے

    سنا یہی ہے

    خموش رہنا، کبھی سر ہلا کے سن لینا ہوا میں چاند بنانا، بنا کے چن لینا عجیب دور تھا چاروں طرف اداسی تھی زمین اپنی ہی تنہائیوں کی پیاسی تھی کبھی شراب کبھی شاعری کبھی محفل پھر اس کے بعد دھڑکتا ہوا اکیلا دل خود اپنے گھر میں ہی گھر سے الگ تھلگ رہنا کتاب جاں کے لیے رات بھر غزل کہنا یہ ...

    مزید پڑھیے

    اسرار

    رات گہری مہیب خاموشی دل بھی چپ چاپ یوں دھڑکتا ہے جیسے درویش اپنے حجرے میں آسمانوں کو کھٹکاتا ہے

    مزید پڑھیے