تازہ تسلیوں سے پرانے سوال کر

تازہ تسلیوں سے پرانے سوال کر
شائستۂ عذاب ذرا دیکھ بھال کر


اڑتی ہے آسمان میں رنگوں کی دھول کیوں
دیکھیں گے ہم ہوا کو ہوا میں اچھال کر


دل پر عجیب گرد ہے آنکھوں میں ہے غبار
دو چار کام آج تو فرصت نکال کر


آپس میں لڑ پڑے ہیں کسی مسئلے پہ لوگ
اپنا بھی ایک شخص ہے پتھر سنبھال کر