Javed Kamal Rampuri

جاوید کمال رامپوری

جاوید کمال رامپوری کی غزل

    ہاتھ پھر بڑھ رہا ہے سوئے جام

    ہاتھ پھر بڑھ رہا ہے سوئے جام زندگی کی اداسیوں کو سلام کون جانے یہ کس کی زلفوں میں ہو گئے ہیں اسیر صبح و شام میں سمجھتا ہوں پھر بہار آئی کوئی لیتا ہے جب خزاں کا نام کوئی اہل جنوں کو سمجھا دے آگہی تو نہیں ہے کوئی دام ساتھ دو گام تو چلو ورنہ بھول جائے گی گردش ایام

    مزید پڑھیے

    ڈھل چکی رات ملاقات کہاں سو جاؤ

    ڈھل چکی رات ملاقات کہاں سو جاؤ سو گیا سارا جہاں سارا جہاں سو جاؤ سو گئے وہم و گماں وہم و گماں سو جاؤ سو گیا درد نہاں درد نہاں سو جاؤ کب تلک دیدۂ نم دیدۂ نم دیدۂ نم کب تلک آہ و فغاں آہ و فغاں سو جاؤ آہ اب ٹوٹ چلا ٹوٹ چلا ٹوٹ چلا آہ یہ رشتۂ جاں رشتۂ جاں سو جاؤ اٹھ چلے دل کے مکیں دل ...

    مزید پڑھیے

    تھے جو شعروں میں نغمگی کی طرح

    تھے جو شعروں میں نغمگی کی طرح دل سے جاتے ہیں روشنی کی طرح جب بھی ظالم وہ یاد آتا ہے دل دکھاتا ہے چاندنی کی طرح ہائے وہ لوگ ہم سے روٹھ گئے جن کو چاہا تھا زندگی کی طرح جانے یہ لوگ کس جہاں کے ہیں جب بھی ملتے ہیں اجنبی کی طرح سخت حالات میں جیے جانا موت ہے موت خود کشی کی طرح

    مزید پڑھیے

    نیند آنکھوں میں ہے کم کم مجھے آواز نہ دو

    نیند آنکھوں میں ہے کم کم مجھے آواز نہ دو جاگ جائے گا کوئی غم مجھے آواز نہ دو یوں بھی رفتار دل زار ہے مدھم مدھم اور ہو جائے گی مدھم مجھے آواز نہ دو نیم خاموش ہے ساز رگ جاں کا ہر تار تار ہو جائیں گے برہم مجھے آواز نہ دو بعد مدت کے ذرا دل کو قرار آیا ہے جانے کیا دل کا ہو عالم مجھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2