ہاتھ پھر بڑھ رہا ہے سوئے جام

ہاتھ پھر بڑھ رہا ہے سوئے جام
زندگی کی اداسیوں کو سلام


کون جانے یہ کس کی زلفوں میں
ہو گئے ہیں اسیر صبح و شام


میں سمجھتا ہوں پھر بہار آئی
کوئی لیتا ہے جب خزاں کا نام


کوئی اہل جنوں کو سمجھا دے
آگہی تو نہیں ہے کوئی دام


ساتھ دو گام تو چلو ورنہ
بھول جائے گی گردش ایام