کہیں ہے داغ ناکامی کہیں ہے خون ارماں کا
کہیں ہے داغ ناکامی کہیں ہے خون ارماں کا ہمارا دل مرقع بن گیا ہے یاس و حرماں کا جہاں والوں پہ میں احسان کرکے بھول جاتا ہوں مرے اخلاق کو چمکا رہا ہے نقش نسیاں کا علائق میں الجھ کر فرصت نظارہ کھو بیٹھا نہایت دید کے قابل تھا منظر بزم امکاں کا بڑھی ہے تشنگی سیراب کر دو پاؤں کے ...