Jarrar Chhaulisi

جرار چھولسی

جرار چھولسی کی غزل

    کہیں ہے داغ ناکامی کہیں ہے خون ارماں کا

    کہیں ہے داغ ناکامی کہیں ہے خون ارماں کا ہمارا دل مرقع بن گیا ہے یاس و حرماں کا جہاں والوں پہ میں احسان کرکے بھول جاتا ہوں مرے اخلاق کو چمکا رہا ہے نقش نسیاں کا علائق میں الجھ کر فرصت نظارہ کھو بیٹھا نہایت دید کے قابل تھا منظر بزم امکاں کا بڑھی ہے تشنگی سیراب کر دو پاؤں کے ...

    مزید پڑھیے

    چھپ چھپ کے پھر نگاہ کرم کر رہا ہے کون

    چھپ چھپ کے پھر نگاہ کرم کر رہا ہے کون آنکھوں میں اشک بعد ستم بھر رہا ہے کون مرنا رہ وفا میں ہے خود مستقل حیات مرنے کی آرزو تھی مگر مر رہا ہے کون منزل پہ آ کے خود مجھے ہونا پڑا تباہ محو نظر فریبیٔ رہبر رہا ہے کون اچھا ہوا جو شہر تمنا اجڑ گیا خود اس دیار شوق میں آ کر رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کیا بتاؤں مجھے کیا لگتا ہے

    کیا بتاؤں مجھے کیا لگتا ہے ہر نفس تیر جفا لگتا ہے ہوں وہ خوددار کسی سے کیا کہوں سانس لینا بھی برا لگتا ہے پھلتے دیکھی ہے کہیں شاخ ستم میرے کہنے کا برا لگتا ہے حادثے بھی ہیں بڑے کام کی چیز دوست دشمن کا پتا لگتا ہے میرا سر تو کہیں جھکتا ہی نہیں تیرا نقش کف پا لگتا ہے کیا کہوں ...

    مزید پڑھیے

    کس روز ہم نے آہ و فغاں میں بسر نہ کی

    کس روز ہم نے آہ و فغاں میں بسر نہ کی تھی رات کون سی جو تڑپ کر سحر نہ کی اس دور خود غرض میں یہ خودداریٔ نگاہ دم پر بھی بن گئی سوئے ساقی نظر نہ کی بزم جہاں سے جاتے ہوئے کیوں کسی نے بھی مڑ کر نگاہ جانب دیوار و در نہ کی یہ احتیاط پاس محبت تو دیکھیے کرنی تھی ان سے غم کی شکایت مگر نہ ...

    مزید پڑھیے

    کس کی آنکھوں نے کئے اشک رواں میرے بعد

    کس کی آنکھوں نے کئے اشک رواں میرے بعد ہو گیا راز محبت کا بیاں میرے بعد میرے باعث ہوا دنیا میں تعارف تیرا پھر ترے حسن کے چرچے یہ کہاں میرے بعد جن کی نظروں میں کھٹکتا تھا میں کانٹے کی طرح ان کی نظروں میں ہے تاریک جہاں میرے بعد پھر کسی نے نہ سنا تذکرۂ قتل و جفا کٹ گئی خنجر قاتل کی ...

    مزید پڑھیے

    دی گواہی لہو کی دھاروں نے

    دی گواہی لہو کی دھاروں نے پاؤں چومے ہیں خارزاروں نے ساتھ چھوڑا نہ غمگساروں نے مار ڈالا مجھے سہاروں نے کس نے لوٹے مزے بہاروں کے ہم کو لوٹا ہے خود بہاروں نے گھر سجائے چمن اجاڑ دیا گل کھلائے فریب کاروں نے اب کہیں بھی تو کیا کسی سے کہیں کاٹ دی رات غم کے ماروں نے دل سے پردے اٹھائے ...

    مزید پڑھیے

    صرف بیٹھے ہوئے آہیں نہ بھرو

    صرف بیٹھے ہوئے آہیں نہ بھرو عشرت دل کے لئے کچھ تو کرو ولولوں کو نہ کہیں نیند آ جائے ستم اہل ستم سے نہ ڈرو ہے یہ قسمت کی شکایت بے سود تم میں جوہر بھی ہے کچھ بے ہنرو داغ ہی داغ نظر آئیں گے چاند میں بھی تمہیں اے کم نظرو منزل صبر بہت آگے ہے سرحد ظلم سے بیداد گرو اپنے گھر بار سے رہنا ...

    مزید پڑھیے

    سبب درد جگر یاد آیا

    سبب درد جگر یاد آیا یعنی وہ تیر نظر یاد آیا جھلملانے لگے پلکوں پہ نجوم پھر کوئی رشک قمر یاد آیا اپنی منزل کے نشاں پاتے ہی مجھ کو آغاز سفر یاد آیا دیکھ کر آئنہ کس سوچ میں ہو کیا کوئی اہل نظر یاد آیا بھولنے والے تڑپ اٹھے گا میں کسی وقت اگر یاد آیا ان کی پازیب ادھر گونج اٹھی شور ...

    مزید پڑھیے

    واپس جو نہیں آئے گا میں وہ سفری ہوں

    واپس جو نہیں آئے گا میں وہ سفری ہوں اے دوست گلے لگ کہ چراغ سحری ہوں اے حسن یہ انداز و ادا تجھ میں کہاں تھے میں تیرے لیے آئینۂ عشوہ گری ہوں بڑھتی ہوئی تحریک سیاست مجھے سمجھو اعلان بغاوت پئے بیداد گری ہوں دنیا کے لیے جو ہے اجالوں کا پیمبر ظلمت کدۂ شب میں وہ نجم سحری ہوں رنگینی ...

    مزید پڑھیے

    دنیائے دنی ہے مطلب کی سب رشتے ناطے توڑ دیے

    دنیائے دنی ہے مطلب کی سب رشتے ناطے توڑ دیے اب خود پہ بھروسہ کرنا ہے جتنے تھے سہارے چھوڑ دیے اب دل سے دل کا ملنا کیا بس ہاتھ ملانا کافی ہے دیرینہ طور طریقوں نے چلتے چلتے دم توڑ دیے دنیائے محبت کے اندر نفرت کا اندھیرا جن سے بڑھے اس دور ترقی کے ایسے جتنے ہیں اٹھا کر توڑ دیے جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2