چھپ چھپ کے پھر نگاہ کرم کر رہا ہے کون
چھپ چھپ کے پھر نگاہ کرم کر رہا ہے کون
آنکھوں میں اشک بعد ستم بھر رہا ہے کون
مرنا رہ وفا میں ہے خود مستقل حیات
مرنے کی آرزو تھی مگر مر رہا ہے کون
منزل پہ آ کے خود مجھے ہونا پڑا تباہ
محو نظر فریبیٔ رہبر رہا ہے کون
اچھا ہوا جو شہر تمنا اجڑ گیا
خود اس دیار شوق میں آ کر رہا ہے کون
جرارؔ ہر قدم پہ ملے ہیں سخن فروش
اس دور خود غرض میں سخنور رہا ہے کون