Jarrar Chhaulisi

جرار چھولسی

جرار چھولسی کی غزل

    بچ کے وہ نکلتے ہیں جن سے روشناسی ہے

    بچ کے وہ نکلتے ہیں جن سے روشناسی ہے زندگی ہماری تو اب اجل نما سی ہے جذب ہو گئی دل کی بے کلی فضاؤں میں اس طرف ہے سناٹا اس طرف اداسی ہے دل کشی غضب کی ہے حسن سادہ کاری میں کس کے دست رنگیں نے پھول کی قبا سی ہے خشکیٔ لب ساحل کہہ رہی ہے پیاسوں سے کیا بساط دریا خود اس کی روح پیاسی ہے اس ...

    مزید پڑھیے

    پا کے اشارے جوش نمو کے

    پا کے اشارے جوش نمو کے قافلے نکلے ہیں خوشبو کے چار طرف گلزار کے اندر ہنگامے ہیں رنگ و بو کے انسانی قدروں کو گنوا کر خوش ہیں بہت شہرت کے بھوکے رزم بھی ہم سے بزم بھی ہم سے مالک ہیں ہم سیف و سبو کے تاروں بھری شب کے دامن پر چھینٹے ہیں یہ کس کے لہو کے اردو میں اردو کی برائی کرتے ہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2