Jani Shaida

جانی شیدا

  • 1950

جانی شیدا کی غزل

    چاندنی جیسا بدن چاند سی صورت اس کی

    چاندنی جیسا بدن چاند سی صورت اس کی ہر نظر والے کو پڑتی ہے ضرورت اس کی اتنی فرصت سے بنایا ہے خدا نے اس کو تکتا رہتا ہے ہر اک آئنہ صورت اس کی ایک میں ہی تو پرستار نہیں ہوں اس کا ہر دھڑکتے ہوئے دل پر ہے حکومت اس کی میں اسے چھوڑ کے زندہ بھی نہیں رہ سکتا میری ہر سانس پہ لکھی ہے محبت اس ...

    مزید پڑھیے

    صدائے راہ گزر کو ترس گیا ہوں میں

    صدائے راہ گزر کو ترس گیا ہوں میں تمہارے ساتھ سفر کو ترس گیا ہوں میں نہ جانے کیا ہوئی مجھ سے کسی کی حق تلفی لگا کے پیڑ ثمر کو ترس گیا ہوں میں شجر پہ بیٹھے پرندے اڑا دئے تھے کبھی اب اپنے گھر میں بھی گھر کو ترس گیا ہوں میں حرام روزی کا لقمہ چبا لیا تھا کبھی دعائیں کر کے اثر کو ترس ...

    مزید پڑھیے

    خود رہ کے مشکلات میں حل دے دیا اسے

    خود رہ کے مشکلات میں حل دے دیا اسے میں وہ شجر خزاں میں بھی پھل دے دیا اسے موتی لٹائے میں نے سمندر تھا جب تلک اب جھیل ہو گیا تو کنول دے دیا اسے پتھراؤ جس کا شیوہ دل آزاری جس کا شوق منصف خدا ہے شیش محل دے دیا اسے وہ اک غریب مجھ سے ملا ہو گیا امیر میں اک فقیر درس عمل دے دیا اسے پوری ...

    مزید پڑھیے

    پہلے ہم خود ہی اگر ہاتھ بڑھانے لگ جائیں

    پہلے ہم خود ہی اگر ہاتھ بڑھانے لگ جائیں ہم کو دشمن بھی کلیجے سے لگانے لگ جائیں ایک پل میں وہ اتر آئے نظر سے دل میں اس سفر کے لئے اوروں کو زمانے لگ جائیں تیرا دامن بھی ستاروں سے منور ہو جائے میرے آنسو بھی سلیقے سے ٹھکانے لگ جائیں اسی امید پہ ماں باپ جیے جاتے ہیں بیٹی عزت سے اٹھے ...

    مزید پڑھیے