پہلے ہم خود ہی اگر ہاتھ بڑھانے لگ جائیں

پہلے ہم خود ہی اگر ہاتھ بڑھانے لگ جائیں
ہم کو دشمن بھی کلیجے سے لگانے لگ جائیں


ایک پل میں وہ اتر آئے نظر سے دل میں
اس سفر کے لئے اوروں کو زمانے لگ جائیں


تیرا دامن بھی ستاروں سے منور ہو جائے
میرے آنسو بھی سلیقے سے ٹھکانے لگ جائیں


اسی امید پہ ماں باپ جیے جاتے ہیں
بیٹی عزت سے اٹھے بیٹے کمانے لگ جائیں


وہ خزاں میں بھی جو آ جائے چمن میں شیداؔ
خشک پودے بھی حسیں پھول کھلانے لگ جائیں