صدائے راہ گزر کو ترس گیا ہوں میں
صدائے راہ گزر کو ترس گیا ہوں میں
تمہارے ساتھ سفر کو ترس گیا ہوں میں
نہ جانے کیا ہوئی مجھ سے کسی کی حق تلفی
لگا کے پیڑ ثمر کو ترس گیا ہوں میں
شجر پہ بیٹھے پرندے اڑا دئے تھے کبھی
اب اپنے گھر میں بھی گھر کو ترس گیا ہوں میں
حرام روزی کا لقمہ چبا لیا تھا کبھی
دعائیں کر کے اثر کو ترس گیا ہوں میں
اٹھا جو سر سے مرے والدین کا سایہ
تو اک شفیق نظر کو ترس گیا ہوں میں
مرے نصیب کو تاریکیوں نے گھیر لیا
وہ شب ملی کہ سحر کو ترس گیا ہوں میں
زمیں کے چاند کا دیدار کیا ہوا شیداؔ
تو آسماں کے قمر کو ترس گیا ہوں میں