دل ہے صحرا سے کچھ اداس بہت
دل ہے صحرا سے کچھ اداس بہت
گھر کو ویراں کروں تو گھاس بہت
رعب پڑ جائے اس پہ لہجہ کا
مدعا کم ہو التماس بہت
میری تنہائیوں کی دنیا میں
لوگ رہتے ہیں آس پاس بہت
ہے عجب حال غم کے سورج کا
روشنی کم ہے انعکاس بہت
مطمئن دل ہو کیا حقیقت سے
ہے مری سوچ میں قیاس بہت
لوگ مرتے ہیں اک خوشی کے لئے
ہم مسرت میں ہیں اداس بہت
دور افتادہ چمن کے لئے
ایک ہی پھول کی ہے باس بہت
خد و خال اس کے اور یہ چہرے
ایسے دیکھے ہیں اقتباس بہت
جس سے منسوب تلخیاں ہیں نظرؔ
اس کے لہجے میں ہے مٹھاس بہت