محبت کو جو ظاہر کر رہی ہے
محبت کو جو ظاہر کر رہی ہے
مرے چہرے پہ وہ تحریر بھی ہے
ہوئیں صدیاں نظر کے زلزلوں کو
ابھی تک شہر کی حالت وہی ہے
اجاگر جب بھی اس کے غم ہوئے ہیں
نئے رخ سے غزل میں نے کہی ہے
اگر گہرا نہیں ہے زخم احساس
ہمارے سوچنے میں کچھ کمی ہے
ہوائے ظلم کے جھونکے ادھر بھی
مرے دل میں بھی شوق آگہی ہے
ترے انجان بھی تیرے شناسا
ہمارا آشنا بھی اجنبی ہے
میں تیرے ظلم کا رد عمل ہوں
مرا پیغام صلح و آشتی ہے
کہاوت بن چکی ہے جس کی وحشت
نظرؔ ہی ایک ایسا آدمی ہے