بستیاں ویران ہوں گی کثرت تعمیر سے

بستیاں ویران ہوں گی کثرت تعمیر سے
یہ کھنڈر ابھرے ہیں دنیا میں اسی تدبیر سے


کوہ بھی کرتے ہیں ظاہر شدت جذبات کو
زلزلے آتے ہیں اکثر گرمیٔ تحریر سے


میری قسمت کے ستارے آستیں میں ہیں مری
اب قدم نکلیں گے باہر حلقۂ تقدیر سے


اب کے سوچا تھا کریں کچھ ہم بھی زخموں کا علاج
کر گئے موسم دواؤں کو جدا تاثیر سے


ایک اک لمحے سے ملتا ہے یہی ہم کو شعور
اک صدی ہو جائیں گے پیچھے ذرا تاخیر سے


زندگی ٹھہرا ہواؤں میں یہ لہروں کا نظام
ساری دنیا رقص میں ہے ایک ہی زنجیر سے


یوں ہوا محسوس دل کو جب ملا سانسوں کا لمس
ہر بدن واقف نہیں ہے دھوپ کی تاثیر سے


ہیں یہی نیندیں تو کوئی چھین لے نیندیں نظرؔ
خواب سے پہلے ہوں واقف خواب کی تعبیر سے