Jamal Owaisi

جمال اویسی

ممتاز مابعد جدید شاعر۔ اپنی نظموں کے لئے معروف

One of the outstanding post-modern poets.

جمال اویسی کی غزل

    پہلے کی بہ نسبت ہے مجھے کام زیادہ

    پہلے کی بہ نسبت ہے مجھے کام زیادہ دل کو ہے مگر خواہش آرام زیادہ ناکام رہی شاعری جن پیش رؤں کی دیتے ہیں عزیزوں کو وہ پیغام زیادہ کم کوش تھے کج اپنی کلہ رکھ نہیں پائے باغی نہ بنے اور ہوئے بدنام زیادہ کچھ ہارے ہوئے بیٹھ کے اب سوچ رہے ہیں آغاز کیا کم ہوا انجام زیادہ دنیا سے توقع ...

    مزید پڑھیے

    ہر لمحہ دل دوز خموشی چیخ رہی ہے

    ہر لمحہ دل دوز خموشی چیخ رہی ہے میں ہوں جہاں تنہائی میری چیخ رہی ہے گھر کے سب دروازے کیوں دیوار ہوئے ہیں گھر سے باہر دنیا ساری چیخ رہی ہے خالی آنکھیں سلگ رہی ہیں خشک ہیں آنسو اندر اندر دل کی اداسی چیخ رہی ہے طوفانوں نے سارے خیمے توڑ دئیے ہیں یوں لگتا ہے ساری خدائی چیخ رہی ...

    مزید پڑھیے

    دیکھتا ہوں تجھ کو اکثر اے سمندر اے سمندر

    دیکھتا ہوں تجھ کو اکثر اے سمندر اے سمندر جیسے ہو تو میرے اندر اے سمندر اے سمندر تیرے طوفانوں نے کی یلغار چٹانوں پہ شب بھر شور تھا بام فلک پر اے سمندر اے سمندر ڈھونڈھتی ہے آنکھ سطح آب پر چہرہ کسی کا تو بنا دے اس کا پیکر اے سمندر اے سمندر بیکرانی میں تو اپنی میری ویرانی سمو ...

    مزید پڑھیے

    گریز پا ہے نیا راستہ کدھر جائیں

    گریز پا ہے نیا راستہ کدھر جائیں چلو کہ لوٹ کے ہم اپنے اپنے گھر جائیں نہ موج تند ہے کچھ ایسی جس سے کھیلیں ہم چڑھے ہوئے ہیں جو دریا کہو اتر جائیں عجب قرینے کے مجنوں ہیں ہم کہ رہتے ہیں چپ نہ خاک دشت اڑائیں نہ اپنے گھر جائیں جبیں ہے خاک سے ایسی لگی کہ اٹھتی نہیں جنون سجدہ اگر ہو چکا ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیسے لوگ تھے یاد آئے کم جانے کے بعد

    جانے کیسے لوگ تھے یاد آئے کم جانے کے بعد عیب سارے کھل گئے مرحوم کہلانے کے بعد چاند کا ہالہ مری آنکھوں کا جالا بن گیا کچھ نظر آیا نہ پھر تیرے نظر آنے کے بعد آدمیت کے سبھی پیمانے ہو جاتے ہیں پاش بھوک ایسی جاگتی ہے پیٹ بھر جانے کے بعد اس نے اک اک لفظ کا پیسہ کیا مجھ سے وصول کل کی شب ...

    مزید پڑھیے

    میں نے اپنی موت پہ اک نوحہ لکھا ہے

    میں نے اپنی موت پہ اک نوحہ لکھا ہے تم کو سناتا ہوں دیکھو کیسا لگتا ہے جسم کو کر ڈالا ہے خواہش کا ہرکارہ چہرے پر مصنوعی وقار سجا رکھا ہے سونی کر ڈالی ہے بستی خواب نگر کی کل تک جو دریا بہتا تھا خشک ہوا ہے ہونٹوں سے زنجیر خموشی باندھ رکھی ہے طاق امید پہ دل کا چراغ بجھا رکھا ...

    مزید پڑھیے

    جو میری آہ سے نکلا دھواں ہے میری مٹی کا

    جو میری آہ سے نکلا دھواں ہے میری مٹی کا مرے اندر نہاں آتش فشاں ہے میری مٹی کا دئے ہیں طاق پر روشن مگر ضو میرے اندر ہے جو کچھ کچھ تیرگی ہے وہ سماں ہے میری مٹی کا مرے جلووں کی پامالی نہ دیکھی جائے گی مجھ سے ہنر کچھ اس طرح سے رائیگاں ہے میری مٹی کا ضرور اس کی شباہت میری سوچوں سے الگ ...

    مزید پڑھیے

    بدن پہ خرقۂ تہذیب پھٹنے والا ہے

    بدن پہ خرقۂ تہذیب پھٹنے والا ہے جسے بچا کے رکھا ہے بہت سنبھالا ہے تمہیں دکھاؤں میں شہر جدید کا نقشہ یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے یہ شوالہ ہے تمام ریکوں میں رکھی ہوئی کتابوں میں تمہیں خبر نہیں فکر و نظر کا جالا ہے مہیب اندھیرے میں روشن خیال لوگوں پر نہ جانے اگلے ہی پل کیا گزرنے والا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2