غبار کس کا ہے استعارہ یہ گرد کس واسطے اڑی ہے
غبار کس کا ہے استعارہ یہ گرد کس واسطے اڑی ہے
یہاں وہاں ایک ایک ذرہ میں سرکشی کس نے ڈال دی ہے
بکھر گئی ہے پرانی ترتیب سارے عنصر الگ ہوئے ہیں
ہر ایک اپنے میں اک مکمل وجودیت کا علامتی ہے
جہاں پہ ذرات کی سلگ تھی وہاں پہ ادراک تھم گیا تھا
بصیرت اپنی بھی اس کے آگے ہزار چاہا نہ جا سکی ہے
نفس پہ غالب ہے نفس تکیہ حرام سے سوچنا سمجھنا
ضمیر جاگے تو آہ بھر لو کہ اب قیامت ہی آ رہی ہے
مجھے پکارو مجھے صدا دو میں ایک کھویا ہوا بشر ہوں
شعور میں لا شعور کی طرح ایک آواز گونجتی ہے
کھڑا ہوں میں دس ہزار سالہ قدیم دنیا کے بیچ اویسیؔ
الٹ کے تاریخ کے ورق زندگی مجھے کچھ سنا رہی ہے
طلسم کیسا ہے اس نے میرے حواس قابو میں کر لئے ہیں
میں اس کو پہچانتا نہیں ہوں جو میری چوکھٹ پہ آ چکی ہے