اپنے ہونٹوں پہ نہ شکوے نہ گلے ہیں صاحب
اپنے ہونٹوں پہ نہ شکوے نہ گلے ہیں صاحب رہ گئے غم سو مقدر سے ملے ہیں صاحب پس زنداں سر مقتل بھی سر دار بھی ہم کیا یہی اپنی وفاؤں کے صلے ہیں صاحب مے کشی کو نہ سہی وعظ کو آئے ہوں گے میکدے میں بھی ہمیں شیخ ملے ہیں صاحب ایک عرصہ ہوا یوں ترک تعلق کو مگر ان کی یادوں کے کنول اب بھی کھلے ...