بھیگی پلکوں پہ خواب چھوڑ گیا

بھیگی پلکوں پہ خواب چھوڑ گیا
رتجگوں کے عذاب چھوڑ گیا


خار سارے سمیٹ کر اک شخص
اپنے پیچھے گلاب چھوڑ گیا


نشۂ وصل اب بھی باقی ہے
جانے کیسی شراب چھوڑ گیا


ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ہم اس کو
جب سے عہد شباب چھوڑ گیا


عہد رنگیں گزر گیا راشدؔ
پیچھے فکر حساب چھوڑ گیا