Jaleel Arshad Khan Rashid

جلیل ارشد خاں راشد

  • 1976

جلیل ارشد خاں راشد کی غزل

    اپنے ہونٹوں پہ نہ شکوے نہ گلے ہیں صاحب

    اپنے ہونٹوں پہ نہ شکوے نہ گلے ہیں صاحب رہ گئے غم سو مقدر سے ملے ہیں صاحب پس زنداں سر مقتل بھی سر دار بھی ہم کیا یہی اپنی وفاؤں کے صلے ہیں صاحب مے کشی کو نہ سہی وعظ کو آئے ہوں گے میکدے میں بھی ہمیں شیخ ملے ہیں صاحب ایک عرصہ ہوا یوں ترک تعلق کو مگر ان کی یادوں کے کنول اب بھی کھلے ...

    مزید پڑھیے

    بھیگی پلکوں پہ خواب چھوڑ گیا

    بھیگی پلکوں پہ خواب چھوڑ گیا رتجگوں کے عذاب چھوڑ گیا خار سارے سمیٹ کر اک شخص اپنے پیچھے گلاب چھوڑ گیا نشۂ وصل اب بھی باقی ہے جانے کیسی شراب چھوڑ گیا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ہم اس کو جب سے عہد شباب چھوڑ گیا عہد رنگیں گزر گیا راشدؔ پیچھے فکر حساب چھوڑ گیا

    مزید پڑھیے

    فکر رنج و الم اور میں

    فکر رنج و الم اور میں ہم راہی اک غم اور میں تیری باتیں کرتے ہیں رات دوات قلم اور میں تجھ کو ڈھونڈتے رہتے ہیں میری چشم نم اور میں پاس ہے میرے انٹرنیٹ ہاتھ میں جام جم اور میں ایک تو تیری کج خلقی پھر دنیا کے ستم اور میں کب تک ساتھ جلیں راشدؔ ہجر کے یہ موسم اور میں

    مزید پڑھیے

    اس درجہ بھاگ دوڑ کے اتنا کمائیں گے

    اس درجہ بھاگ دوڑ کے اتنا کمائیں گے ہم زندگی کی شام تلک گھر بنائیں گے پہلے تو زندگی کی بہت چاہ تھی ہمیں کس کو خبر تھی راہ میں یہ موڑ آئیں گے کہتے ہیں کٹ ہی جاتی ہے عمر دراز بھی سو مطمئن ہیں اپنے بھی دن بیت جائیں گے محرومیوں کے داغ نا آسودہ خواہشیں ان سب کے ساتھ ہم تجھے کیا منہ ...

    مزید پڑھیے