اپنے ہونٹوں پہ نہ شکوے نہ گلے ہیں صاحب
اپنے ہونٹوں پہ نہ شکوے نہ گلے ہیں صاحب
رہ گئے غم سو مقدر سے ملے ہیں صاحب
پس زنداں سر مقتل بھی سر دار بھی ہم
کیا یہی اپنی وفاؤں کے صلے ہیں صاحب
مے کشی کو نہ سہی وعظ کو آئے ہوں گے
میکدے میں بھی ہمیں شیخ ملے ہیں صاحب
ایک عرصہ ہوا یوں ترک تعلق کو مگر
ان کی یادوں کے کنول اب بھی کھلے ہیں صاحب
تب بھی برداشت کیا اب بھی ستم کر دیکھیں
ہونٹ اپنے تھے سلے اب بھی سلے ہیں صاحب
یہ مری عزت و شہرت یہ ترقی یہ عروج
یہ مری ماں کی دعاؤں کے صلے ہیں صاحب
راشدؔ خستہ سے لگتی ہے شناسائی بہت
آپ کیا پہلے کبھی اس سے ملے ہیں صاحب