اس درجہ بھاگ دوڑ کے اتنا کمائیں گے

اس درجہ بھاگ دوڑ کے اتنا کمائیں گے
ہم زندگی کی شام تلک گھر بنائیں گے


پہلے تو زندگی کی بہت چاہ تھی ہمیں
کس کو خبر تھی راہ میں یہ موڑ آئیں گے


کہتے ہیں کٹ ہی جاتی ہے عمر دراز بھی
سو مطمئن ہیں اپنے بھی دن بیت جائیں گے


محرومیوں کے داغ نا آسودہ خواہشیں
ان سب کے ساتھ ہم تجھے کیا منہ دکھائیں گے


مر کر بھی خواہشوں سے نہ مل پائے گی نجات
ہم خواہش بہشت کے چکر میں آئیں گے


اللہ مہربان بھی عادل بھی ہے جلیلؔ
چلئے اسی سے چل کے ذرا لو لگائیں گے