جلیل عالیؔ کی غزل

    موڑ موڑ گھبرایا گام گام دہلا میں

    موڑ موڑ گھبرایا گام گام دہلا میں جانے کن خرابوں کے راستوں پہ نکلا میں سطح آب کہہ پائے کیا تہوں کے افسانے سامع لب ساحل بحر سے بھی گہرا میں اور کچھ تقاضے کا سلسلہ چلے یارو پل میں کیسے من جاؤں مدتوں کا روٹھا میں وہ کہ ہے مرا اپنا حرف مدعا اس کو غیر کے حوالے سے کس طرح سمجھتا ...

    مزید پڑھیے

    جدا جدا سب کے خواب تعبیر ایک جیسی

    جدا جدا سب کے خواب تعبیر ایک جیسی ہمیں ازل سے ملی ہے تقدیر ایک جیسی ہر اک کتاب عمل کے عنوان اپنے اپنے ورق ورق پر قضا کی تحریر ایک جیسی گزرتے لمحوں سے نقش کیا اپنے اپنے پوچھیں ان آئنوں میں ہر ایک تصویر ایک جیسی تری شرر باریوں مری خاکساریوں کی ہوا کبھی تو کرے گی تشہیر ایک ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی بات پر صید غبار یاس ہونا

    ذرا سی بات پر صید غبار یاس ہونا ہمیں برباد کر دے گا بہت حساس ہونا مسلسل کوئی سرگوشی ہمکتی ہے لہو میں میسر ہی نہیں ہوتا پر اپنے پاس ہونا سبھی سینوں میں تیری نوبتوں کی گونج لیکن تری دھن کا کسی دل کی نوائے خاص ہونا ہماری شوق راہوں پر کبھی دیکھے گی دنیا تمہارے پتھروں کا گوہر و ...

    مزید پڑھیے

    ہوا بھی زور پہ تھی تیز تھا بہاؤ بھی

    ہوا بھی زور پہ تھی تیز تھا بہاؤ بھی لڑی ہے خوب مگر کاغذی سی ناؤ بھی ابھی سے ہاتھ چھڑاتے ہو واپسی کے لیے جو چل پڑے ہو تو پھر ساتھ ساتھ آؤ بھی جسے جہاں کی روش دور لے گئی اس کو قریب لا نہ سکیں تم مری وفاؤ بھی بندھا رہا بہر انداز حلقۂ یاراں ہوا ہے سرد کہیں درد کا الاؤ بھی بجا کہ میری ...

    مزید پڑھیے

    برگ بھر بار محبت کا اٹھایا کب تھا

    برگ بھر بار محبت کا اٹھایا کب تھا تم نے سینے میں کوئی درد بسایا کب تھا اب جو خود سے بھی جدا ہو کے پھرو ہو بن میں تم نے بستی میں کوئی دوست بنایا کب تھا نقد احساس کہ انساں کا بھرم ہوتا ہے ہم نے کھویا ہے کہاں آپ نے پایا کب تھا شہر کا شہر امڈ آیا ہے دل جوئی کو دشمنوں نے بھی تری طرح ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہونے کی اہانت نہیں ہم کر سکتے

    اپنے ہونے کی اہانت نہیں ہم کر سکتے سو تری یاد سے غفلت نہیں ہم کر سکتے دل میں لاتے نہیں دشمن سے بھی نفرت کا خیال اس سے کم کوئی عبادت نہیں ہم کر سکتے دور رہتے ہیں تکبر کی ہوا سے لیکن عجز کو غافل غیرت نہیں ہم کر سکتے مصلحت سحر بہت پھونکتی پھرتی ہے بھرے کم قد و قامت وحشت نہیں ہم کر ...

    مزید پڑھیے

    عجب اسباب کرتا جا رہا ہوں

    عجب اسباب کرتا جا رہا ہوں لہو سیماب کرتا جا رہا ہوں میں اپنی موج میں اک رقص دیگر سر گرداب کرتا جا رہا ہوں ازل سے جاگتی آنکھوں جہاں میں بسر اک خواب کرتا جا رہا ہوں سر مژگاں ابھرتا ہے جو تارا اسے مہتاب کرتا جا رہا ہوں جو دل اک عمر سے بنجر پڑے تھے انہیں سیراب کرتا جا رہا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کسے خبر ابتدا کی انجام کون جانے

    کسے خبر ابتدا کی انجام کون جانے گمان باطل خیال سب خام کون جانے تمام لفظوں کا ایک مفہوم کون سمجھے تمام چیزوں کا ایک ہی نام کون جانے پجاریوں کے لیے ازل سے تڑپ رہے ہیں سمے کے پہلو میں کتنے اصنام کون جانے نکل کے دن کی تمازتوں سے وفا کا سورج ہوا ہے خوں کس طرح سر شام کون جانے اداس ...

    مزید پڑھیے

    غرور کوہ کے ہوتے نیاز کاہ رکھتے ہیں

    غرور کوہ کے ہوتے نیاز کاہ رکھتے ہیں ترے ہمراہ رہنے کو قدم کوتاہ رکھتے ہیں اندھیروں میں بھی گم ہوتی نہیں سمت سفر اپنی نگاہوں میں فروزاں اک شبیہ ماہ رکھتے ہیں یہ دنیا کیا ہمیں اپنی ڈگر پر لے کے جائے گی ہم اپنے ساتھ بھی مرضی کی رسم و راہ رکھتے ہیں وہ دیوار انا کی اوٹ کس کس آگ جلتا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی زندہ ہے لیکن کسی دم ساز کے ساتھ

    زندگی زندہ ہے لیکن کسی دم ساز کے ساتھ ورنہ یوں جیسے کبوتر کوئی شہباز کے ساتھ بجلیاں ساتھ لیے زہر بھرے لمحوں کی وقت چلتا ہے زمانے میں کس انداز کے ساتھ آسماں جانے کہاں لے کے چلا ہے مجھ کو اوپر اٹھتا ہے برابر مری پرواز کے ساتھ آج تنہا ہوں تو کیا، دیکھتا رہنا کل تک اور آوازیں بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5