موڑ موڑ گھبرایا گام گام دہلا میں
موڑ موڑ گھبرایا گام گام دہلا میں جانے کن خرابوں کے راستوں پہ نکلا میں سطح آب کہہ پائے کیا تہوں کے افسانے سامع لب ساحل بحر سے بھی گہرا میں اور کچھ تقاضے کا سلسلہ چلے یارو پل میں کیسے من جاؤں مدتوں کا روٹھا میں وہ کہ ہے مرا اپنا حرف مدعا اس کو غیر کے حوالے سے کس طرح سمجھتا ...