کسے خبر ابتدا کی انجام کون جانے

کسے خبر ابتدا کی انجام کون جانے
گمان باطل خیال سب خام کون جانے


تمام لفظوں کا ایک مفہوم کون سمجھے
تمام چیزوں کا ایک ہی نام کون جانے


پجاریوں کے لیے ازل سے تڑپ رہے ہیں
سمے کے پہلو میں کتنے اصنام کون جانے


نکل کے دن کی تمازتوں سے وفا کا سورج
ہوا ہے خوں کس طرح سر شام کون جانے


اداس جذبوں کے دلدلی راستوں پہ عالؔی
سنبھل گیا چل کے گام دو گام کون جانے