جلیل عالیؔ کی غزل

    کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں

    کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں خود ڈر گئے تو سب کو ڈرانا پڑا ہمیں اک دوسرے سے بچ کے نکلنا محال تھا اک دوسرے کو روند کے جانا پڑا ہمیں اپنے دیے کو چاند بتانے کے واسطے بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں وحشی ہوا نے ایسے برہنہ کئے بدن اپنا لہو لباس بنانا پڑا ہمیں ذیلی حکایتوں ...

    مزید پڑھیے

    گزر گیا جو مرے دل پہ سانحہ بن کر

    گزر گیا جو مرے دل پہ سانحہ بن کر اتر گیا وہ مری روح میں خدا بن کر ترا خیال شب ہجر پھیلتا ہی گیا ہزار رنگ کی سوچوں کا سلسلہ بن کر وفا کے سنگ سے ٹکرا کے احتجاج‌ انا صلیب لب پہ سسکنے لگا دعا بن کر بدن کے دشت میں من کی حسین صبحوں کو نکل رہا ہے غم دہر اژدہا بن کر کبھی تو دیپ جلیں گل ...

    مزید پڑھیے

    اسے دل سے بھلا دینا ضروری ہو گیا ہے

    اسے دل سے بھلا دینا ضروری ہو گیا ہے یہ جھگڑا ہی مٹا دینا ضروری ہو گیا ہے لہو برفاب کر دے گی تھکن یکسانیت کی سو کچھ فتنے جگا دینا ضروری ہو گیا ہے گرا دے گھر کی دیواریں نہ شوریدہ سری میں ہوا کو راستہ دینا ضروری ہو گیا ہے بہت شب کے ہوا خواہوں کو اب کھلنے لگے ہیں دیوں کی لو گھٹا دینا ...

    مزید پڑھیے

    تمہارا کیا تمہیں آساں بہت رستے بدلنا ہے

    تمہارا کیا تمہیں آساں بہت رستے بدلنا ہے ہمیں ہر ایک موسم قافلے کے ساتھ چلنا ہے بس اک ڈھلوان ہے جس پر لڑھکتے جا رہے ہیں ہم ہمیں جانے نشیبوں میں کہاں جا کر سنبھلنا ہے ہم اس ڈر سے کوئی سورج چمکنے ہی نہیں دیتے کہ جانے شب کے اندھیاروں سے کیا منظر نکلنا ہے ہمارے دل جزیرے پر اترتا ہی ...

    مزید پڑھیے

    کیا ربط ایک درد سے بنتے چلے گئے

    کیا ربط ایک درد سے بنتے چلے گئے جنگل میں جیسے راستے بنتے چلے گئے کڑیاں کڑی قیود کی بڑھتی چلی گئیں حیلے رہ نجات کے بنتے چلے گئے ہونٹوں پہ کھل اٹھا تو ہوا داغ دل دعا کیا کیا سخن کے سلسلے بنتے چلے گئے کس صورت ثبات پہ ٹھہری نگاہ دل اک رقص رو میں ٹوٹتے بنتے چلے گئے بوتے رہے لہو کے ...

    مزید پڑھیے

    لٹتے ہیں بہت سہل کہ دن ایسے کڑے ہیں

    لٹتے ہیں بہت سہل کہ دن ایسے کڑے ہیں گھر میں نہیں جیسے کہیں جنگل میں پڑے ہیں سر سانجھ کے کب ہیں فقط اک شور انا ہے چاہت کے قبیلے نہیں خواہش کے دھڑے ہیں کس رنگ سے تم سنگ زمانے کے چلے ہو ہر ننگ میں نشے تمہیں کچھ اور چڑھے ہیں دن رات ہیں بے مہر ہواؤں کے حوالے پتوں کی طرح جیسے درختوں سے ...

    مزید پڑھیے

    کس دن برنگ زخم نیا گل کھلا نہیں

    کس دن برنگ زخم نیا گل کھلا نہیں کس شب بہ‌ فیض اشک چراغاں ہوا نہیں اک سہم ہے کہ ہر کہیں رہتا ہے ساتھ ساتھ اک وہم ہے کہ آج بھی دل سے گیا نہیں اے دوست راہ زیست میں چل احتیاط سے گرتے ہوئے کو کوئی یہاں تھامتا نہیں گو ذہن سے شبیہ تری محو ہو گئی لیکن ترے خیال کا سورج بجھا نہیں من کا ...

    مزید پڑھیے

    دل ہے کہ غم دل کا عزا دار نہیں ہے

    دل ہے کہ غم دل کا عزا دار نہیں ہے جاں ہے کہ سم زیست سے بیزار نہیں ہے یا قد کوئی اٹھتی ہوئی دیوار نہیں ہے یا سر کوئی سودا کا سزاوار نہیں ہے الفاظ کے رنگوں نے جو تصویر بنائی یہ تو مرے جذبات کا اظہار نہیں ہے نزدیک بھی آ جھانک کے دل میں بھی ذرا دیکھ ملبوس ہی انسان کا معیار نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے

    یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے ایک گل کا یہ سب اسرار بنایا ہوا ہے سوچ کو سوجھ کہاں ہے کہ جو کچھ کہہ پائے دل نے کیا کیا پس دیوار بنایا ہوا ہے پیر جاتے ہیں یہ دریائے شب و روز اکثر باغ اک سیر کو اس پار بنایا ہوا ہے شوق دہلیز پہ بے تاب کھڑا ہے کب سے درد گوندھے ہوئے ہیں ہار بنایا ...

    مزید پڑھیے

    اک ایسی ان کہی تحریر کرنے جا رہا ہوں

    اک ایسی ان کہی تحریر کرنے جا رہا ہوں ہنر کو اور بھی گمبھیر کرنے جا رہا ہوں مرے احساس میں بے چین جس کے خال و خد ہیں اسے ہر آنکھ میں تصویر کرنے جا رہا ہوں میں فرہاد معانی تیشۂ حرف و بیاں سے سخن کی جھیل جوئے شیر کرنے جا رہا ہوں دلوں کے درمیاں رستوں میں کتنے خم پڑے ہیں میں ان کو پھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5