جلیل عالیؔ کی غزل

    مسافتیں کب گمان میں تھیں سفر سے آگے

    مسافتیں کب گمان میں تھیں سفر سے آگے نکل گئے اپنی دھن میں اس کے نگر سے آگے شجر سے اک عمر کی رفاقت کے سلسلے ہیں نگاہ اب دیکھتی ہے برگ و ثمر سے آگے یہ دل شب و روز اس کی گلیوں میں گھومتا ہے وہ شہر جو بس رہا ہے دشت نظر سے آگے خجل خیالوں کی بھیڑ حیرت سے تک رہی ہے گزر گیا رہرو تمنا کدھر ...

    مزید پڑھیے

    اک ہمیں سلسلۂ شوق سنبھالے ہوئے ہیں

    اک ہمیں سلسلۂ شوق سنبھالے ہوئے ہیں وہ تو سب عہد وفا حشر پہ ٹالے ہوئے ہیں ولولے دل کے سنبھلتے ہی نہیں سینے میں جانے کس چاند کے یہ بحر اچھالے ہوئے ہیں قریۂ خواب کہ جس نور نہایا ہوا ہے ہم اسی سے یہ شب و روز اجالے ہوئے ہیں وقت دنیا میں پھراتا ہے دنوں کو کیا کیا دیکھ جو کوہ تھے وہ ...

    مزید پڑھیے

    اک آوارہ سا لمحہ کیا قفس میں آ گیا ہے

    اک آوارہ سا لمحہ کیا قفس میں آ گیا ہے لگا جیسے زمانہ دسترس میں آ گیا ہے یہ کس کونپل کھلی ساعت صدا دی ہے کسی نے رتوں کا رس ہر اک تار نفس میں آ گیا ہے ہم اس کوچے سے نسبت کی خوشی کیسے سنبھالیں ہمارا نام اس کے خار و خس میں آ گیا ہے لہو میں لو کہاں موجود زندہ رابطے کی نبھانے کو فقط بے ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی بادل بارش لائے شوق جزیروں سے

    جب بھی بادل بارش لائے شوق جزیروں سے خوشہ خوشہ حرف کی بیلیں بھر گئیں ہیروں سے تم سے ملے تو شہر تمنا کتنا پھیل گیا کیا کیا خواب نئے تعمیر ہوئے تعبیروں سے آنکھیں رنگوں کی برساتیں تک تک جھیل ہوئیں دل نے کیا کیا عکس کشید کئے تصویروں سے اس کو چھونے کی خواہش نے ہاتھ بڑھائے تو پھن ...

    مزید پڑھیے

    شاخ بے نمو پر بھی عکس گل جواں رکھنا

    شاخ بے نمو پر بھی عکس گل جواں رکھنا آ گیا ہمیں عالی دل کو شادماں رکھنا بے فلک زمینوں پر روشنی کو ترسو گے سوچ کے دریچوں میں کوئی کہکشاں رکھنا رہرو تمنا کی داستاں ہے بس اتنی صبح و شام اک دھن میں خود کو نیم جاں رکھنا کار و بار دنیا میں اہل درد کی دولت سود سب لٹا دینا پاس ہر زیاں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اور مرے درد کے شعلوں کو ہوا دو

    کچھ اور مرے درد کے شعلوں کو ہوا دو بے نور ہوئے داغ اندھیرا ہے ضیا دو پیچھے غم و اندوہ کے فرعون کا لشکر آگے الم و یاس کا دریا ہے عصا دو میں دشت غم عشق میں ہنستا ہوا آؤں رستے سے غم دہر کی دیوار ہٹا دو میں اور سلگتا ہوا صحرائے تجسس بھٹکا ہوا راہی ہوں کوئی راہ دکھا دو کیوں میری ...

    مزید پڑھیے

    پھر ایک داغ چراغ سفر بناتے ہوئے

    پھر ایک داغ چراغ سفر بناتے ہوئے نکل پڑے ہیں نئی رہگزر بناتے ہوئے وہ جست بھر کے ہوا ہو گیا مگر نہ کھلا میں کس نواح میں تھا اس کے پر بناتے ہوئے نکل سکی نہ کوئی اور صورت تصویر بہائے اشک بہت چشم تر بناتے ہوئے وہ قہر برہمی بخت ہے کہ ڈرتے ہیں گرا نہ لیں کہیں دیوار در بناتے ہوئے قدم ...

    مزید پڑھیے

    کب کون کہاں کس لیے زنجیر بپا ہے

    کب کون کہاں کس لیے زنجیر بپا ہے یہ عقدۂ اسرار ازل کس پہ کھلا ہے کس بھیس کوئی موج ہوا ساتھ لگا لے کس دیس نکل جائے یہ دل کس کو پتا ہے اک ہاتھ کی دوری پہ ہیں سب چاند ستارے یہ عرشۂ جاں کس دم دیگر کی عطا ہے آہنگ شب و روز کے نیرنگ سے آگے دل ایک گل خواب کی خوشبو میں بسا ہے یہ شہر طلسمات ...

    مزید پڑھیے

    رات جو موج ہوا نے گل سے دل کی بات کہی

    رات جو موج ہوا نے گل سے دل کی بات کہی اک اک برگ چمن نے کیسی کیسی بات کہی آنکھیں رنگ برنگ سجے رستوں سرشار ہوئیں دل کی خلش نے منظر منظر ایک ہی بات کہی ہر اظہار کی تہ میں ایک ہی معنی پنہا تھے اپنی طرف سے سب نے اپنی اپنی بات کہی آج بھی حرف و بیاں کے سب پیمانے حیراں ہیں کیسے غزل نے دو ...

    مزید پڑھیے

    ایک لمحہ کہ ملیں سارے زمانے جس میں (ردیف .. ے)

    ایک لمحہ کہ ملیں سارے زمانے جس میں ایک نکتہ سبھی حکمت کے خزانے جس میں دائرہ جس میں سما جائیں جہانوں کی حدود آئنہ جس میں نظر آئے عدم کا بھی وجود فرش پر عرش کی عظمت کی دلیل محکم خلق پر رحمت خالق کی سبیل محکم دسترس اس کی نگاہوں کی کراں تا بہ کراں وہ تجسس کے لئے آخری منزل کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5