کچھ اور مرے درد کے شعلوں کو ہوا دو
کچھ اور مرے درد کے شعلوں کو ہوا دو
بے نور ہوئے داغ اندھیرا ہے ضیا دو
پیچھے غم و اندوہ کے فرعون کا لشکر
آگے الم و یاس کا دریا ہے عصا دو
میں دشت غم عشق میں ہنستا ہوا آؤں
رستے سے غم دہر کی دیوار ہٹا دو
میں اور سلگتا ہوا صحرائے تجسس
بھٹکا ہوا راہی ہوں کوئی راہ دکھا دو
کیوں میری شکستوں کو سہارا نہیں ملتا
انسان ہوں محتاج خدا کا ہوں خدا دو
اس شہر میں جینے کی ہے اب ایک ہی صورت
احساس کے منصور کو سولی پہ چڑھا دو
اس دور کا سقراط ہوں سچ بول رہا ہوں
کیا دیر ہے کیوں چپ ہو مجھے زہر پلا دو