اک آوارہ سا لمحہ کیا قفس میں آ گیا ہے

اک آوارہ سا لمحہ کیا قفس میں آ گیا ہے
لگا جیسے زمانہ دسترس میں آ گیا ہے


یہ کس کونپل کھلی ساعت صدا دی ہے کسی نے
رتوں کا رس ہر اک تار نفس میں آ گیا ہے


ہم اس کوچے سے نسبت کی خوشی کیسے سنبھالیں
ہمارا نام اس کے خار و خس میں آ گیا ہے


لہو میں لو کہاں موجود زندہ رابطے کی
نبھانے کو فقط بے روح رسمیں آ گیا ہے


انا کے فیصلے کیا مرضی پندار کیسی
مرا ہونا نہ ہونا اس کے بس میں آ گیا ہے


اتر آئے ان آنکھوں میں کچھ ایسے عکس عالیؔ
کہ دل پھر سے گرفت پیش و پس میں آ گیا ہے