Jagdeesh Raj Figar

جگدیش راج فگار

جگدیش راج فگار کی غزل

    آدمی تھا کیا وہی اک کام کا

    آدمی تھا کیا وہی اک کام کا ارض پر جس کا کوئی مسکن نہ تھا جو کسی نے پیرہن مجھ کو دیا وہ مرے ہی تن کا حصہ بن گیا ہم تھے جڑواں اس لئے تن ایک تھا ایک سرجن نے الگ ہم کو کیا جل میں جب تک میں رہا زندہ رہا تٹ پہ ساگر کے میں آ کر مر گیا جب کبھی میں سوچنے کچھ لگ پڑا دور تک پھر سلسلہ چلتا ...

    مزید پڑھیے

    خاندانی قول کا تو پاس رکھ

    خاندانی قول کا تو پاس رکھ رام ہے تو سامنے بن باس رکھ آس کے گوہر بھی کچھ مل جائیں گے یاس کے کچھ پتھروں کو پاس رکھ تو امارت کے محل کا خواب چھوڑ خواب میں بس جھونپڑی کا باس رکھ محض تیری ذات تک محدود کیوں موسموں کے کیف کا بھی پاس رکھ دہر میں ماضی بھی تھا تیرا نہ بھول آنے والے کل میں ...

    مزید پڑھیے

    میں نے جب تب جدھر جدھر دیکھا

    میں نے جب تب جدھر جدھر دیکھا اپنی صورت کا ہی بشر دیکھا ریت میں دفن تھے مکان جہاں ان پہ مٹی کا بھی اثر دیکھا جب سکونت تھی میری برزخ میں نیک روحوں کا اک نگر دیکھا جو برہنہ مدام رہتا تھا میں نے ملبوس وہ شجر دیکھا اپنے مسلک پہ گامزن تھا جب روشنی کو بھی ہم سفر دیکھا مجھ پہ تھا ہر ...

    مزید پڑھیے

    یہ ناداں ذہن ہے جو سوچتا ہے

    یہ ناداں ذہن ہے جو سوچتا ہے خلا میں کیا کہیں صوت و صدا ہے قلم نے جو بھی کاغذ پر لکھا ہے مرے افکار کا وہ آئنہ ہے اک ایسا بھی ہے پانی کا پرندہ تہہ قلزم پہ جس کا گھونسلہ ہے فرشتوں کی پڑھو تو ہست ریکھا دوام ان کے مقدر میں لکھا ہے اتاریں گے کبھی طوق غلامی ہواؤں کا فضاؤں نے کہا ...

    مزید پڑھیے

    جو فقط رہتے ہوں دن کو بے قرار

    جو فقط رہتے ہوں دن کو بے قرار مہوشوں میں کیجئے ان کا شمار جس پہ سہواً ہو گیا میرا نزول ذات اس کی ہو گئی بس آب دار وہ مری سانسوں کے رستے ہو لیا جو اٹھا دل سے کبھی گرد و غبار خالق کونین سے کیا واسطہ جب مرا کردار ٹھہرا کردگار دن کو ہوں میں گرم شب کو سرد ہوں میری ہستی کیا نہیں ہے ریگ ...

    مزید پڑھیے

    تپش سے بھاگ کر پیاسا گیا ہے

    تپش سے بھاگ کر پیاسا گیا ہے سمندر کی طرف صحرا گیا ہے کنواں موجود ہے جل بھی میسر وہ میرے گھر سے کیوں تشنہ گیا ہے دوبارہ روح اس میں پھونک دو تم بدن جو پھر اکیلا آ گیا ہے زماں اپنی روش پر تو ہے قائم مگر لمحات میں فرق آ گیا ہے سفر میں تازہ دم ہوگا وہ کیسے جو گھر ہی سے تھکا ماندہ گیا ...

    مزید پڑھیے

    ظرف کہنہ گلا دیا جائے

    ظرف کہنہ گلا دیا جائے روپ اس کو نیا دیا جائے اپنی اگنی میں وہ جلے نہ مزید شمس کو یہ بتا دیا جائے پوچھنا کیا ہے بوڑھے امبر سے اس کے ید میں عصا دیا جائے اپنی اپنی حدود ہی میں رہیں بحر و بر کو بتا دیا جائے ان سے پھولوں کو ایرکھا ہوگی تتلیوں کو اڑا دیا جائے سونا سونا ہے جو بھی صحن ...

    مزید پڑھیے

    گگن سے دھرتی پہ آ گیا تھا

    گگن سے دھرتی پہ آ گیا تھا اجل کو اچھے سے جانتا تھا میں ہم سفر اس کا کیسے بنتا وہ راستہ ہی بدل چکا تھا میں آ گیا تھا بھٹک کے اس پر زمیں کے نیچے جو راستہ تھا ہوا کے ہاتھوں ہوا پریشاں پتنگ بن کر میں کیا اڑا تھا نظر پڑی جس بشر پہ میری مہا پرش تھا مہاتما تھا وطن جو لوٹے تو ہم نے ...

    مزید پڑھیے