جو فقط رہتے ہوں دن کو بے قرار

جو فقط رہتے ہوں دن کو بے قرار
مہوشوں میں کیجئے ان کا شمار


جس پہ سہواً ہو گیا میرا نزول
ذات اس کی ہو گئی بس آب دار


وہ مری سانسوں کے رستے ہو لیا
جو اٹھا دل سے کبھی گرد و غبار


خالق کونین سے کیا واسطہ
جب مرا کردار ٹھہرا کردگار


دن کو ہوں میں گرم شب کو سرد ہوں
میری ہستی کیا نہیں ہے ریگ زار


کشمکش جاری ہے جو افلاک میں
دیکھیے حاصل ہو کس کو اقتدار


اور بھی تو ہیں یہاں کتنے مقیم
پاؤں دھرتی پر نہ تو اتنے پسار


موت سے کہہ دو نہ اس میں دخل دے
زیست سے ہے ربط میرا استوار


موت کا پہلے ہی پرتو دیکھ لوں
دل کے درپن پر ہے اس کا انحصار


ایک سوکھا کھیت ہے وہ جس جگہ
میں وہاں ہوں آب جو کا رہ گزار


یہ جو عالم ہے کبھی اک دیس تھا
اس سے کٹ کر بن گئے کتنے دیار


خاک ہوں یا موم ہوں کیا امتیاز
شمع محفل ہوں کہ ہوں شمع مزار


حبس کے زندان میں رکھا ہے کیوں
میں تو زندانی نہیں ہوں اے فگارؔ