یہ ناداں ذہن ہے جو سوچتا ہے

یہ ناداں ذہن ہے جو سوچتا ہے
خلا میں کیا کہیں صوت و صدا ہے


قلم نے جو بھی کاغذ پر لکھا ہے
مرے افکار کا وہ آئنہ ہے


اک ایسا بھی ہے پانی کا پرندہ
تہہ قلزم پہ جس کا گھونسلہ ہے


فرشتوں کی پڑھو تو ہست ریکھا
دوام ان کے مقدر میں لکھا ہے


اتاریں گے کبھی طوق غلامی
ہواؤں کا فضاؤں نے کہا ہے


زمیں کو اب نہیں پہلی سی حرکت
قمر بھی دور ہوتا جا رہا ہے


وحی نازل ہوئی ہے آسماں سے
کہ ہر بچہ جہاں کا دیوتا ہے


تمام اسرار کھولے گا وہ اپنے
گگن دھرتی کی جانب چل پڑا ہے


روابط اس کے بے معنی ہیں سارے
زمان حال سے جو کٹ گیا ہے


مقید ہی رہا ہوں گھر میں اپنے
یگوں سے سلسلہ یہ چل رہا ہے


جہاں کو تنگ بینی کا یہ تحفہ
فلک کی وسعتوں سے کیا ملا ہے


فگارؔ اک پیکر حلم و تحمل
بنا کر سب کے گھر میں رکھ دیا ہے