گگن سے دھرتی پہ آ گیا تھا
گگن سے دھرتی پہ آ گیا تھا
اجل کو اچھے سے جانتا تھا
میں ہم سفر اس کا کیسے بنتا
وہ راستہ ہی بدل چکا تھا
میں آ گیا تھا بھٹک کے اس پر
زمیں کے نیچے جو راستہ تھا
ہوا کے ہاتھوں ہوا پریشاں
پتنگ بن کر میں کیا اڑا تھا
نظر پڑی جس بشر پہ میری
مہا پرش تھا مہاتما تھا
وطن جو لوٹے تو ہم نے دیکھا
نگر کا نقشہ بدل چکا تھا
خزاں خجل تھی کئے پہ اپنے
شجر برہنہ جو کر دیا تھا
عبور کرنا تھا اس کو آخر
نظر نظر میں جو فاصلہ تھا
عجیب بھکشک تھا وہ زمیں پر
گگن سے مٹی جو مانگتا تھا
گگن نے سمجھا زمیں کو پاگل
جو اس پہ اولے وہ پھینکتا تھا
فگارؔ تربت وہاں تھی کس کی
دیا فضا میں جو جل رہا تھا