ظرف کہنہ گلا دیا جائے

ظرف کہنہ گلا دیا جائے
روپ اس کو نیا دیا جائے


اپنی اگنی میں وہ جلے نہ مزید
شمس کو یہ بتا دیا جائے


پوچھنا کیا ہے بوڑھے امبر سے
اس کے ید میں عصا دیا جائے


اپنی اپنی حدود ہی میں رہیں
بحر و بر کو بتا دیا جائے


ان سے پھولوں کو ایرکھا ہوگی
تتلیوں کو اڑا دیا جائے


سونا سونا ہے جو بھی صحن وہاں
پیڑ تن کا لگا دیا جائے


مہوشوں کی جو فصل لینی ہے
ارض پر مہ اگا دیا جائے


ارض کے واسطے یہ اچھا ہے
بیچ میں نبھ ہٹا دیا جائے


صبح ہو جب تو ماہتاب کو کیا
لوری دے کر سلا دیا جائے


ان کو لمحوں میں بانٹنا ہے ابھی
ساعتوں کو بڑھا دیا جائے


زندگی ہے اگر سراب فگارؔ
جگ کو صحرا بنا دیا جائے