Isma Hadia

اسماء ہادیہ

اسماء ہادیہ کی غزل

    کمال رکھتے ہیں اپنی وہی جوانی میں

    کمال رکھتے ہیں اپنی وہی جوانی میں لگا کے آگ جو بیٹھے ہوئے ہیں پانی میں گئے دنوں کے دکھائی دئے سبھی منظر رفاقتوں سے جڑی ہر کسی نشانی میں تمام خواب مری زندگی کے بہہ نکلے تری جدائی میں اشکوں کی اس روانی میں جسے بھی دیکھیے رنج و الم میں ڈوبا ہے عجیب درد ہے ہر شخص کی کہانی ...

    مزید پڑھیے

    جذبوں میں پہلے جیسی صداقت نہیں رہی

    جذبوں میں پہلے جیسی صداقت نہیں رہی اب درمیاں ہمارے محبت نہیں رہی بھولی ہوئی ہوں کب سے میں خود کو بتاؤں کیا اب تجھ کو یاد کرنے کی عادت نہیں رہی کیسا سماں ہے کیسی یہ فصل بہار ہے شہر وفا کے پھولوں میں نکہت نہیں رہی وہ بجھ گئی ستارہ ادا آنکھ کب کی دوست دل میں کسی کے پیار کی حسرت ...

    مزید پڑھیے

    تو راز سمجھا نہیں درد کی پہیلی کا

    تو راز سمجھا نہیں درد کی پہیلی کا وہ داستاں تھی مری نام تھا سہیلی کا دکھی ہوئی مری آنکھیں تھی تیرے اشکوں سے کہ رنگ ہلکا پڑا تھا کسی چنبیلی کا ہنسی مذاق میں مشہور تھا یہ شہر مگر کسی نے دکھ نہیں بانٹا تھا اس اکیلی کا نہ جانے کیسی محبت میں قید ہو گئی ہوں میں روز دیکھتی ہوں دائرہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2