جذبوں میں پہلے جیسی صداقت نہیں رہی

جذبوں میں پہلے جیسی صداقت نہیں رہی
اب درمیاں ہمارے محبت نہیں رہی


بھولی ہوئی ہوں کب سے میں خود کو بتاؤں کیا
اب تجھ کو یاد کرنے کی عادت نہیں رہی


کیسا سماں ہے کیسی یہ فصل بہار ہے
شہر وفا کے پھولوں میں نکہت نہیں رہی


وہ بجھ گئی ستارہ ادا آنکھ کب کی دوست
دل میں کسی کے پیار کی حسرت نہیں رہی


تیری وفا نے ایسا سبق دے دیا مجھے
مجھ کو کسی بھی ذات سے نفرت نہیں رہی


اے ہادیہؔ شعور محبت جسے دیا
اب وہ ہی کہہ رہا ہے کہ الفت نہیں رہی