تو راز سمجھا نہیں درد کی پہیلی کا
تو راز سمجھا نہیں درد کی پہیلی کا
وہ داستاں تھی مری نام تھا سہیلی کا
دکھی ہوئی مری آنکھیں تھی تیرے اشکوں سے
کہ رنگ ہلکا پڑا تھا کسی چنبیلی کا
ہنسی مذاق میں مشہور تھا یہ شہر مگر
کسی نے دکھ نہیں بانٹا تھا اس اکیلی کا
نہ جانے کیسی محبت میں قید ہو گئی ہوں
میں روز دیکھتی ہوں دائرہ ہتھیلی کا
وہ دل کی سیج پہ اے ہادیہؔ بٹھائے گا
سجا ہے خواب میں کمرہ کوئی حویلی کا