کمال رکھتے ہیں اپنی وہی جوانی میں

کمال رکھتے ہیں اپنی وہی جوانی میں
لگا کے آگ جو بیٹھے ہوئے ہیں پانی میں


گئے دنوں کے دکھائی دئے سبھی منظر
رفاقتوں سے جڑی ہر کسی نشانی میں


تمام خواب مری زندگی کے بہہ نکلے
تری جدائی میں اشکوں کی اس روانی میں


جسے بھی دیکھیے رنج و الم میں ڈوبا ہے
عجیب درد ہے ہر شخص کی کہانی میں


اکیلی میں ہی نہیں ہوں وفا کے زنداں میں
بہت سے اور ہیں اس قید رائیگانی میں


مجھے تو دشت تمنا کی دھوپ کام آئی
اے ہادیہؔ مری مٹی کی سائبانی میں