رقص
سکوت کھلنے لگا ہے تنہائی چہچہاتی ہے بام و در پر میں اپنے آبائی گھر کی پچھلی شکستہ سیڑھی پہ سر جھکائے گزشتہ صدیوں کو گن رہی ہوں سفید اور سرخ پتھروں کا مکان اب موم بن کے مجھ پر ٹپک رہا ہے پگھل رہا ہے سبھی دئے بجھ چکے ہیں یاں طاق آرزو کے کتاب رفتہ کے کچھ ورق بس کھلے ہوئے ہیں کہ جن کا ...