نذر اقبالؔ
اے مرے آگہی کے پیمبر
میں تجھے کون سے حرف کی نذر دوں
حرف بنجر ہیں
جذبوں سے سچائیاں چھن گئیں
خواب اڑتی ہوئی دھول کی طرح
آنکھوں میں چبھتے ہیں
گویا زباں ریت کا ایک تودا
بیاں سخت پتھریلے ساحل پہ پھیلی ہوئی
بے ثمر جھاڑیاں
اپنے بے فیض سائے سے خود منجمد
فہم و ادراک و احساس یوں بے اثر
جیسے میں اک کھنڈر
اور تو مجھ میں لفظوں کا زندہ شجر
اپنی پر پیچ بانہوں سے سایہ فگن
اور میں بے خبر
میرے زندہ شجر
تیرے سائے میں آئندگاں کی مہک
تیری سرسر میں بھی رفتگاں کی گرج
تیرے پھل پھول دہکی ہوئی آگہی
آگہی سے نمو اور نمو سے خودی
منجمد موسموں میں ہمارے لیے
روشنی کی خبر
میرے زندہ شجر
میرے زندہ شجر